حق، خیر، جمال
خدا کے گھر کے ایک سے زیادہ دروازے ہیں۔ (عیسیٰ نورالدین)
کچھ لوگ قصوروار ہیں لیکن ہم سب ذمہ دار ہیں۔ (ربی ابراہیم جوشوا)
انسان جانتا ہے کہ اسے مرنا ہے، جبکہ جانور نہیں جانتے۔ موت کا یہ علم انسان کے لافانی ہونے کا ثبوت ہے۔ چونکہ انسان لافانی ہے، اس کی صلاحیتیں اسے اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اپنی دنیاوی ناپائیداری کا ادراک کر سکے۔ (عیسیٰ نورالدین)
باہر سے کوئی بھی شخص ہماری باطنی دنیا پر حکومت نہیں کر سکتا چاہے وہ کچھ بھی کرے یا کتنی ہی کوشش کرے۔ جب ہمیں اس حقیقت کا علم ہو جاتا ہے تو ہم حقیقی معنوں میں آزاد ہو جاتے ہیں۔ (گوتم بدھ)
یہ وہم کی طاقت ہے جو ہمیں گمراہ کرتی ہے۔ (افلاطون)
جب آنکھ دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے تو دل کی بینائی بجھ جاتی ہے۔ (ابراہیم بن ادھم)
ایک سے زیادہ بار دہرائی جانے والی غلطی ایک شعوری فیصلہ ہے۔ (پاؤلو کوئلہو)
خوشی ایک تتلی کی طرح ہے جس کا تعاقب کیا جائے تو وہ ہمیشہ ہماری گرفت سے باہر رہتی ہے لیکن اگر آپ خاموشی سے بیٹھیں گے تو وہ آپ کے کندھے پر آکر بیٹھ جائے گی۔ (نتھینیل ہتھورن)
لوگ خوبصورت رنگین شیشے کی کھڑکیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ جب سورج نکلتا ہے تو وہ چمکتے دمکتے ہیں، لیکن جب سورج غروب ہوتا ہے تو ان کی اصل خوبصورتی تب ہی ظاہر ہوتی ہے جب روشنی اندر سے ہو۔ (الزبتھ کوبلر راس)
جہالت ایسے راکشسوں کو پیدا کرتی ہے جو روح کے ان خالی جگہوں کو بھر دیتے ہیں جو علم کی حقیقتوں سے کبھی آشنا نہیں ہوئے تھے۔ (ہوریس مان)
درد کے دیس میں ہم سب اکیلے ہیں۔ (مئی سارٹن)
مذہبی انسان نجات پانے کے لیے پیدا ہوا ہے۔ نفسیاتی انسان خوش رہنے ، یعنی تفریح اور دل لگی کرنے کے لئے پیدا ہوتا ہے۔ (وولف گینگ اسمتھ)
اس تاریک مابعد جدید، مابعد حقیقی دور میں، مغرب کا غیر مغربی دنیا کے ساتھ تعلق بنیادی طور پر شیطانیت کا مسئلہ ہے۔ اس حقیقت کو مغرب اور غیر مغرب کے باخبر مفکرین نے بالعموم قبول کیا ہے۔ (آشیس نندی)
جہاں انیسویں صدی کی مادیت نے ہر وہ چیز جو اعلیٰ، روحانی اور ماورائی تھی انسان کے ذہن کے لیے ناقابل رسائی بنا دی تھی، وہیں بیسویں صدی کی نفسیات نے نفس کے جہنم کے تمام دروازے کھول دیے۔ جدید انسان ایک جہتی، خالصتاً نفسیاتی وجود کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (عبدالواحد یحییٰ)
ایک جدید سیکولر دانشور وہ شخص ہوتا ہے جس نے زیادہ تعلیم حاصل کی ہو لیکن جس کی ذہانت اس کی تعلیم سے کم ہو۔ (آرتھر سی کلارک)
آخری درخت کے کٹنے کے بعد، آخری دریا کے آلودہ ہونے کے بعد، آخری مچھلی کے پکڑے جانے کے بعد، تب ہی آپ کو احساس ہوگا کہ پیسہ کافی نہیں ہے، صرف پیسہ ہی زندگی کا واحد مقصد نہیں ہے۔ امید ہے کہ آپ آخرکار سمجھ جائیں گے کہ پیسہ زندگی کے اس قیمتی تحفے کو برقرار نہیں رکھ سکتا، وہ تحفہ جو خدا نے ہم سب کو، انسانوں اور دیگر تمام مخلوقات کو دیا ہے۔ (شمالی امریکہ میں سفید فام استعمار کے نام ایک کری ریڈ انڈین چیف کا پیغام)
----------------------------------------------------------------------------
مابعد جدید ٹرانس ہیومینزم کا نیا زہریلا نظریہ بلند آواز سے یہ اعلان کرتا ہے کہ انسان نہ عبد ہے اور نہ خلیفہ، بلکہ خدا ہے (نعوذ باللہ) ۔ اور ہاں، یہ انیسویں صدی کے اس خبطی شخص فریڈرک نطشے کے پرانے نعرے کا تازہ ترین لیکن کسی حد تک مسخ شدہ ورژن ہے۔
اکیسویں صدی میں ہماری یہ دنیا اپنی تمام بدصورتیوں، اپنی تمام تر سماجی بدحالیوں، ماحولیاتی آفات اور اخلاقی انحطاط کے ساتھ درحقیقت جدید "شعور" کے ایک پروجیکشن کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جیسے اندر، ویسے ہی باہر۔ جدید انسان نے اس دنیا کواپنی شبیہ کے مطابق بنایا ہے۔ ہم اسے اور اس کی شاندار "تہذیب" کو مبارکباد پیش کرتے ہیں!
------------------------------------------
اس بلاگ کے تمام قارئین کو عید مبارک۔ (درویش علی)
For more, click:
No comments:
Post a Comment