Monday, July 17, 2023

Illuminations # 7 (Urdu)


اندھیرا، اجالا

جدید انسان ہر چیز پر یقین رکھتا ہے لیکن ان میں سے کسی پر عمل نہیں کرتا۔
 (عیسیٰ نورالدین)
---------------------------------------------------------------------

آپ کسی بھی حقیقی معنوں میں تب ہی مہذب ہیں جب آپ جدید جاہلیت جسے اکثر جدیدیت کا پروپیگنڈا کرنے والے تہذیب کا نام دیتے ہیں، کو تباہ کرنے کے لیے جوبھی تعلیمی، ثقافتی، تہذیبی اور روحانی کوشش کر سکتے ہیں کریں ۔ یعنی جہاد۔ طالبان یا داعش کا جدید مغرب سے مستعار لیا ہوا جعلی جہاد نہیں بلکہ الغزالی ، سہروردی ، رازی، ابن عربی اور ملا صدرہ کا روایتی اور مذہبی جہاد ۔ جدید دنیا، اس کا سیکولر تعلیمی نظام اور اس کے مکمل طور پر دنیاوی اور ناپاک ثقافتی اصول و رواج جن چیزوں کو ہمارے لئے گہوارہ سے قبر تک تہذیب، ترقی اور انسانی اقدار میں تطہیر اور نفاست کے طور پر پیش کرتا ہے حقیقت میں وہ پوری انسانی تاریخ کی بدترین قسم کی بربریت کے سوا کچھ نہیں۔
------------------------------------------------------------------------

جلوہ خلوہ کا عکس ہے۔ ہم جو جلوے میں ہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اپنے خلوے میں کیا کرتے ہیں اور کیا سوچتے ہیں۔ ظاہر ہمیشہ با طن کی عکاسی کرتا ہے۔ انسان کتنی ہی کوشش کر لے، چھپ نہیں سکتا۔ اگر ہم اپنی تنہائی میں خدا سے نہیں ڈریں گے، تو ہم اس دنیا کے تمام آقا وں، فرعونوں اورجھوٹے خداؤں سے ڈریں گے اور ان ہی کی عبادت کریں گے۔ یہ ایک ظالم کی بھی نشانی ہے، جو بنیادی طور پر بزدل ہوتا ہے۔ تمام پرانی مقدس کتابیں اور کہاوتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ خدا کا خوف حکمت کے حصول کی طرف پہلا قدم ہے۔ اگر آپ اپنے انتہائی نجی اور ذاتی لمحات میں اپنی فطرت ، وجود اور کائنات کے اسرار کے بارے میں غور و فکر نہیں کرتے ہیں، تو آپ کی اندرونی تباہی یقینی ہے، اگرچہ باہر سے آپ دنیا کی نظروں میں سب سے کامیاب اور کامل انسان ہی کیوں نہ دکھائی دیتے ہوں ـ اور جب انسان کو اندرونی یعنی روحانی طورپر نقصان پہنچتا ہے تو پھر وہ جانوروں کے سب سے نچلے طبقے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ یہی سب کچھ پاکستان جیسے ملک میں گزشتہ چند دہائیوں میں، خاص طور پر پچھلے ایک یا دو سالوں میں ہوا ہے۔ پاکستان کے بے شرم اور بے غیرت مجرم حکمران طبقات جن میں سے اکثریت کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے ایک شودر مافیا ہے جوبنیادی طور پر انسان نما غیر انسانی مخلوق ہیں جن کا باطن مکمل طور پر مسخ اور بوسیدہ ہوچکا ہے۔ اس بوسیدہ ، بدبودار اندرونی زخم کا عکس پاکستانی معاشرے میں ہر جگہ واضح طور پر نظر آتا ہے۔
-------------------------------------------------------------------

ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں محض سہولت کے نام پر ہر چیز کو بغیر سوچے سمجھے فوراً اپنا لیا جاتا ہے اور بالکل جائز سمجھا جاتا ہے۔ ہر دوسری قدر کو، خواہ وہ اخلاقی، جمالیاتی، فکری یا روحانی ہو، فوری طور پر نظر انداز اور رد کر دیا جاتا ہے۔ سہولت اور صرف سہولت ہی وہ واحد عنصر ہے جو ان دنوں زیادہ تر لوگوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ سہولت اب ایک نئے مذہب کی طرح ہے جس کے فالوورز (پیروکار) میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس نئے فرقے کے اصول حسب ذیل ہیں:عیش وعشرت خواہ  کسی بھی قیمت پر حاصل ہو، خود غرضی اور مصلحت پسندی، ہر چیز میں کم نظری اور جلد بازی، ہر نئے سماجی رجحان اور فکری فیشن کے لیے پروگرام شدہ ردعمل، بالکل پاولووین کتوں کے جبلی ردعمل کی طرح ، علمی، فنی اور روحانی ہر چیز میں ادنیٰ ترین معیار کو دلچسپی سے اپنانا اور پھر اس پر فخر محسوس کرنا، ہر اس چیز کے لیے شدید ناپسندیدگی، حتیٰ کہ نفرت بھی، جس کے لیے فکری اور اخلاقی کوشش کی ضرورت ہوتی ہےاور جس کے بغیر ہم اپنے آپ کو انسان کہلانے کے حقدار نہیں ہیں ، مسابقتی دشمنی، حسد، لالچ، اور مادی چیزوں کو ذخیرہ کرنے کی لت ۔ سہولت کا یہ فرقہ جو بے لگام ہیڈونزم یعنی خود تسکینی کو فروغ دیتا ہے اس کا سوشل میڈیا کی ڈیجیٹل کائنات میں بہترین مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ منافقانہ بیان بازی اور ڈھونگ ایک طرف، اس نئے فرقے کا ایک اور بنیادی اصول مکمل کفر ہے یعنی کسی مستقل یا ابدی خیال سے وابستگی سے مکمل انکار۔ اس کا حتمی، بنیادی اصول، اس کی توحید، ہر موسم کے ساتھ بدلتی رہتی ہے، جیسے موسمِ گرما میں گزرتے بادل ۔
-----------------------------------------------------------------------------

اس جدید دور میں، ہم جمالیات اور خوبصورتی کے جنون میں مبتلا ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے بہت زیادہ بدصورتی پیدا کر دی ہے۔ ہماری پیدا کردہ بدصورتی ہمیں ہر جگہ گھیرے ہوئے ہے۔ روایتی، ماقبل جدید دنیا میں، فن اور فنکار کا تعلق سب سے پہلے سچائی (حق) سے تھا نہ کہ جمالیات سے۔ روایتی فنکار ہمیشہ جانتا تھا کہ جو سچ (حق) ہے بنیادی طور پر اورلازماً خوبصورت بھی ہے۔ ’’خوبصورتی سچائی (حق) کی شان ہے‘‘ جیسا کہ عظیم افلاطون نے کہا ہے۔ جدید بدصورتی، جسے اکثر خوبصورتی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور اس کی تعریف کی جاتی ہے، حق کی تلاش اور اس پر عمل کرنے کو ترک کرنے کا نتیجہ ہے۔
-----------------------------------------------------------------

بدھ مت کے پیروکار کہتے ہیں کہ آپ وہی بن جاتے ہیں جو آپ سوچتے ہیں یا جو آپ سوچتے ہیں، آپ وہ بن جاتے ہیں۔ لہذا، اپنے سر کا اچھی طرح سے خیال رکھیں۔ ہندوؤں کی پرانی مقدس کتاب اپنشد اس سچائی کی تصدیق کرتی ہے۔ نیز، بھگواد گیتا کے مطابق جس نے دماغ کو فتح کر لیا، اس کے لیے دماغ بہترین دوست ہے۔ لیکن جو ایسا کرنے میں ناکام رہا ہے، اس کا دماغ ہی اس کا سب سے بڑا دشمن ہوگا۔ یہی بات اسلام کے عظیم ترین بزرگوں میں سے ایک مولانا جلال الدین رومی نے بھی کہی ہے۔



The System: The Guardians




No comments:

Post a Comment

The World on Fire

  The World on Fire “To put the world in order, we must first put the nation in order; to put the nation in order, we must first put the fa...