حرف درویش
ماضی کی روش پر قائم رہنے سے، آپ حال کے وجود کے بارے میں مہارت حاصل کر لیں گے۔
(تاؤ ٹی چنگ)
میں تخلیق نہیں کرتا۔ میں صرف ماضی کے بارے میں بتاتا ہوں۔ (کنفیوشس)
آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ فلسفی جن کی حکمت کی آپ اس قدر تعریف کرتے ہیں، جہاں یہ سر رکھتے ہیں، ہم وہاں اپنے پاؤں رکھتے ہیں۔ (اسحاق آف اکا)۔
---------------------------------------------------------------------
پیش رفت؟ ترقی؟ کیا ترقی ، کیا سرفرازی اورکونسا تہذیب و تمدن؟ جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا ہے یہ سب محض 'جدید ترین طریقوں سے قدیم ترین گناہوں کا ارتکاب' ہے۔
-------------------------------
یہ مختصر مضمون میں نے بلخصوص اپنے والد محترم اور ان کے تمام بہترین دوستوں کے لیے لکھا ہے، وہ جینوین یا کھرے اور دلچسپ کویٹہ وال دوست جن میں سے کچھ اب ہمارے درمیان نہیں رہیں- اللہ ان سب کو خوش رکھے اور جو اب ہمارے درمیان نہیں رہے، اللہ ان کوجنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔
(درویش)
------
پرانی سادگی اورآج کا ماحولیاتی طور پر تباہ کن اور سماجی طور پرغیر ذمہ دارانہ یعنی مجرمانہ جدید صارفی طرز زندگی۔
پرانے کوئٹہ میں، میرا مطلب ہے ہمارے والدین اوران کے والدین کے کوئٹہ میں، اگر کوئی خوبی ،قدر یا فضیلت سب سے زیادہ نظر آتی تھی تو وہ سادگی تھی۔
میں قارئین کو فوری طور پر متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ برائے مہربانی سادگی کو حماقت اور جہالت سے نہ الجھائیں۔ ہم میں سے بہت سے نادان و ناسمجھ لوگ بغیر سوچے سمجھے اوراکثر کسی رد عمل میں، اور بعض اوقات جان بوجھ کر بھی، سادگی کو حماقت اور جہالت کے ساتھ الجھاتے ہیں۔ ہمیں ہمارے ناقص اور غلامانہ نظام تعلیم نے سکھایا ہے کہ ہر وہ چیز جو ہمارے اپنے بظاہر بہترین اور سب سے خوبصورت دور کی نہیں ہے اور خاص طور پر اگر اس کا تعلق ماضی سے ہے تواسے حماقت، جہالت اور حتیٰ کہ برائی کے سوا کچھ نہیں سمجھنا چاہئے۔ اور پھر ہمیں اپنے اس نام نہاد بہترین اور خوبصورت و اعلی لیکن یکساں طور پر عارضی اور گزرنے واںے دور کے لیے خود کو مبارکباد دینا سکھایا جاتا ہے کیونکہ اس دور کے رہنماؤں، بنانے والوں, دیکھ بھال اوراس کیلیے جواز فراہم کرنے اوروضاحت کرنے والوں کے مطابق یہ ایک ایسا دور ہے جو ماضی کے مقابلے میں اتنی ہی یقینی طور پر بہتر ہے جتنا کہ ایک روشن دھوپ والا دن ایک تاریک اور ڈراونے رات پر ہوتا ہے۔ ہمارے دل و دماغ میں یہ بھی ٹھونس دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ بے مثال ترقی اوربہتر تہذیب ہے۔ ارتقائی ترقی کا یہ ڈارون کا جھوٹا فرقہ اور اس کے جھوٹے نبی ہمیں ماضی کو حماقت، پسماندگی اور یہاں تک کہ برائی کے ذخیرے کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں دیکھنا سکھا تے ہیں۔ قاری ہوشیار- یہ بلاگ سائٹ ایسے جامع جہالت کے شکار یا ذہنی طور پرغلام لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ اگر آپ ان بد بختوں میں سے ایک ہیں، اور اگر آپ غلطی سے یہاں آ گئے ہیں تو میری آپ سے گزارش ہے کہ مہربانی کرکے خاموشی سے چلے جائیں۔ آپ اپنی ذہنی پرورش حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر کہیں اورتشریف لے جائیں ۔ اور ان سائٹس پر اپنے ارتقائی خیالات سے لدے ہوئے شعور کو اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ کریں اور اپنے بچے کچے ترقی پسند اور ترقی یافتہ وجود کو شیئر اورفاروڈ کریں۔ انٹرنیٹ ایسی سائٹس سے بھرا پڑا ہے جو ایسے لوگوں کو ذہنی غذا فراہم کرتی ہیں۔ یہ بلاگ سائٹ ان میں سے ایک نہیں ہے یعنی یہ آپ کے لیے نہیں ہے۔ اس دکان پر ذہن کیلیے علمی اور فکری چاول چولے اور بلبلی، روح کے لیے خالص روحانی اور ماورائیی یا ماورائ نما اجزا سے تیار شدہ سجی اور بریانی، اور تسکین ذوق یا جمالیاتی اطمینان کے لیے کوئٹہ کے ثقافتی ذائقے اورمقامی رنگ و خوشبو والی کڑاک اور مزیدار چائے فروخت کی جاتی ہے ۔ میں میکڈونلڈ برگر یا کے ایف سی چکن کی طرز کا دماغی خوراک نہیں بیچتا، وہ کھانے جو مردہ گوشت سے بنتے ہیں اور جو جسم سے زیادہ دل و دماغ کو زخمی کرتے ہیں یا نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس بلاگ سائٹ کے اغراض و مقاصد کو قارئین پر واضح کرنے کے بعد، اب ہم موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔ سب سے پہلے تو میں ماضی قریب کے ان سادہ یا سادہ لوح لوگوں کو فلسفی یا حکیم کا خطاب دینا چاہتا ہوں۔ میں فلسفہ کے اس لفظ کو اس کی جدید شکل میں استعمال نہیں کر رہا ہوں جو دراصل اس کے قدیم، کلاسیکی معنی کے بالکل برعکس ہے۔ اس کے بجائے، میں اسے طرز زندگی کے معنی میں استعمال کر رہا ہوں۔ اس سے میرا مطلب صرف کسی قسم کی ذہنی جمناسٹکس ,ذہنی سمرسالٹ یا قلا بازیا ں مارنا نہیں ہے بلکہ زندگی گزارنے کا ایک ایسا جامع طریقہ ہے جو شعور اور وجود دونوں کی مکمل ہم آہنگی پر مشتمل ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ لوگ نہ صرف ایک خاص قسم کے علم کے مالک تھے بلکہ انہوں نے اس علم کو اپنے وجود میں، اپنے کہنے اور کرنے میں بھی عملی جامہ پہنایا ہوا تھا۔ جس کا مطلب ہے، علم اور تربیت۔ ہمارے برعکس، ان کے لیے دونوں لازم و ملزوم تھے۔ مختصر یہ کہ ان کا فلسفہ ان کی سادگی میں سب سے زیادہ نمایا تھا۔ وہ سیدھی بات کرنے والے اور سمجھدار لوگ تھے- ان کی سادگی اس حقیقت کی عکاس تھی کہ انہوں نے زندگی میں ضروری چند چیزوں کو بہت سی غیر ضروری یعنی فضول اور معمولی چیزوں کے ساتھ کبھی نہیں الجھایا۔ آج کل، لوگ اس اہم امتیاز کو کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں جس کی وجہ سے اب وہ اس سارے کچرے میں ڈوب رہے ہیں جسے وہ بغیر سوچے سمجھے خریدتے، جمع کرتے یا ذخیرہ کرتے ہیں۔ ماضی کے ان لوگوں کے لیے وہ چیزیں جو زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے قطعاً ضروری نہیں تھیں، وہ صرف غیر ضروری بوجھ تھیں۔ ایک ایسا بوجھ جو آخر کار آدمی کو اخلاقی طور پر زوال پذیر بناتا ہے، اس کے تخیل کو کند اور اس کی قوت ارادی کو کمزور بنا دیتا ہے۔ وہ ایسے لوگ تھے جو مقدار کو ترسنے کے بجائے کوالٹی یا معیار سے پوری طرح ہم آہنگ تھے۔ وہ جانتے تھے کہ واقعی امیر اور مطمئن ہونے کے لیے کسی شخص کو بہت کچھ خریدنے، جمع کرنے اور رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ اس زمانے کے لوگ تھے جب لوگ زیادہ سنتے تھے اور کم کہتے تھے لیکن جو کچھ بھی کہتے تھے اس میں ہمیشہ بہت زیادہ معنی اور وزن ہوتا تھا۔ آج کل، مرد اورخواتین بہت کچھ کہتے ہیں، وہ آن لائن اور آف لائن دونوں طرح سے نان اسٹاپ بولتے رہتے ہیں، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس کا مطلب بہت کم ہوتا ہے، اور اکثر اس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چیزوں کے مناسب نام بھی نہیں تھے، پھر بھی وہ مقصد سے مالا مال اور معنی سے بھری ہوتھی تھیں۔ اب چیزوں کے واضح نام، وسیع تعریفیں، رنگین لیبل اور تفصیلی وضاحتیں ہیں، لیکن معنی اور مقصد کی کمی ہے۔ لوگ اپنے نیک کاموں کی تشہیر کیے بغیر اچھے کام کرتے تھے۔ وہ خود کو فروغ دینے اور اپنی دوکاندارانہ مارکیٹنگ میں ملوث ہوئے بغیر نیک کام انجام دیتے تھے۔ تب لوگ بے شرمی سے صدقہ دینے جیسی نیکیاں دکھانے کے بجائے چھپ چھپ کر ان پر عمل کرتے تھے۔ ایک نیک عمل ہمیشہ اللہ کی رضا کے لیے کیا جاتا تھا اور پھر وہ نیکی احسان کرنے والا بالکل بھول جاتا تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن ان کے پاس حکمت تھی- ان کی آنکھیں ایسی تھیں جو ان تصویروں کو دیکھ سکتی تھیں جو رنگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔ وہ بہت سی طویل رزمیہ نظمیں یا مہاکاوی نظمیں یاد کر سکتے تھے اور بلخصوص سنا بھی سکتے تھے۔ اوروہ حافظے سے ایسی کہانیاں سنا تے تھے جو مہینوں تک ختم نہیں ہوتی تھیں۔
ایک عجیب قسم کی عاجزی ، انکساریت اور خود انکاریت تھی ان لوگوں میں۔ وہ یہ سب کچھ کر سکتے تھے کیونکہ زندگی کے بارے میں ان کا ایک خاص نظریہ تھا۔ وہ زندگی کے بارے میں ایک سادہ لیکن گہری حکمت رکھتے تھے. اسے سادگی کہتے تھے۔
بس ایک ہی راستہ ہے دنیا کو زیر کرنے کا، جیتنے کا
یہ جتنی پرپیچ ہوتی جائے، اسی قدر سہل وسادہ ہو جا
(افتخار عارف)
----------------------------------------------------------
آپ کے بہن بھائی اور آپ کے پرانے دوست نہ صرف آپ کے بچپن کی یادوں کا بھرپور ذخیرہ اور خزانہ ہیں بلکہ وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔ وہ ان تصویری البموں کی طرح ہیں جن کا ہر صفحہ اکثر خوشی اور کبھی کبھار غم سے بھرا ہوتا ہے لیکن وہ غم بھی ایسے ہوتے ہیں جو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہیں۔ اپنے بہن بھائیوں اوربلخصوص اپنے پرانے دوستوں کی قدروعزت کریں۔
----------------------------
جدید مغرب کی پیداوار، اسلامو فوبیا کی عجیب استخراجی استدلال یا غیر معقول, متعصب و منحرف منطق: تمام لوگ برائی کرتے ہیں. کچھ لوگ مسلمان ہیں۔ (لہذا،) مسلمان برے ہیں۔
------------------------------
پوسٹ ڈیکارٹ (ڈیکارٹ کے بعد) : (کوگیٹو ایرگو سم) میں سوچ سکتا ہوں، اس لیے میں ہوں۔ پری ڈیکارٹ (ڈیکارٹ سے پہلے) : (کوگیٹو ایرگو ایسٹ)۔ میں سوچ سکتا ہوں، اس لیے وہ (خدا) ہے- یا 'کیونکہ میں سوچ سکتا ہوں، وہ (خدا) ہے'۔
-------------------------------
فرض کریں کہ آپ ایک بے غیرت، بے ضمیر اور بے شرم انسان ہیں۔ اور فرض کریں کہ آپ کا تعلق پاکستانی حکمران طبقے سے ہے۔ معاف کیجئے گا، لیکن میں اپنے آپ کو دہرا رہا ہوں۔
(عظیم مارک ٹوین سے مستعار)
-------------------------------
پاکستان (1970 کی دہائی): دو مشہور اور مقبول ترین شخصیات افتخار عارف اور عبید اللہ بیگ تھیں۔
آج کا پاکستان (2022): اب مشہور اور مقبول ترین شخصیات میں حریم شاہ اور علی گل پیر جیسے نام ہیں۔
--------------------------------
(فیس بک، ٹویٹر، یو ٹیوب کے غنڈے ٹرول)
سماجی انصاف یا ہر گزرتے ہوئے فیشن ایبل سماجی مسئلے کے حل کا مطالبہ کرنے والے سوشل میڈیا کے جنگجو دانشور
لائٹس جل رہی ہیں، لیکن گھر میں کوئی نہیں ہے"۔"
-------------------------
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) : ایسے لوگوں کی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کریں جو ایماندار ہوں اور جن کے دلوں میں خوف خدا ہو اور اصل میں کیا ہوگا کہ سارے چور اور گناہ گار اس میں شامل ہو جائیں گے۔
-------------------------
For more: Harfe Dervaish #1 Harf e Dervaish #5 Harf e Dervaish #4
And: A Lament for Quetta , Hussainabad, Quetta
No comments:
Post a Comment