Sunday, March 27, 2022

Harf e Dervaish #7 (Urdu)

حرف درویش


ایک پرانی غالباً افریقی کہاوت ہے : شیطان ہمیشہ آپ کے کانوں میں یہ سرگوشی کرتا ہے:"تم اپنے تمام بہن بھائیوں، دوستوں، پڑوسیوں اور ساتھی "کارکنوں میں بدترین حالت میں ہو اور باقی سب تم سے بہتر (دنیاوی) حالت میں ہیں- 

جدید دنیا میں جہاں حقیقت صرف مادے کی ہے وہیں شیطان کا یہ وسوسہ بہت سے لوگوں میں بہت سی نفسیاتی اور روحانی بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جدیدیت کا آغاز اس اعلان سے ہوا: کائنات میں کوئی بھی مقدس چیز نہیں ہے۔ سب کچھ مادی ہے، صرف خالص مادہ۔  اور یہ کہ انسان کو اپنے وجود کے لیے صرف مادے کی ضرورت ہے- شعور بذات خود مالیکیولز اور ایٹموں کی ایک مخصوص ترتیب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ روسی مصنف دوستوفسکی نے بھی جدیدیت کے اس اعلان کی صحیح نشاندہی کی تھی ۔ اور اس پر کڑی تنقید بھی کی تھی ۔  وہ یعنی دوستوفسکی جدیدیت کا یہ اعلان اپنےایک ناول میں ایک کردار کے ذریعے کرتا ہے جو کہتا ہے: "کوئی خدا نہیں ہے۔ اور جب کوئی خدا نہیں ہے تو میں خدا ہوں۔ جب کوئی خدا نہیں ہے تو ہر چیز کی اجازت ہے"۔ غالباً اس بد بخت اور پاگل جینئس نطشے نے بھی اپنی کتابوں میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا -  لیکن وہ اور دوستوفسکی ایک جیسے خیالات نہیں رکھتے تھے۔ شیطان کے اس وسوسہ کے خلاف اسلام یہ مذہبی، علمی اور روحانی تصورات اور فضائل پیش کرتا ہے: توکل، صبر، شکر، قناعت اور توبہ۔ یا دوسرے لفظوں میں تقویٰ۔ 
---------------------------------

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ملک کے سفاک ترین آمروں اور ظالموں کو کرکٹ اس قدر کیوں پسند ہے؟
----------------------------------

جب تک پاکستان میں کرکٹ ہے باقی تمام کھیلوں کا مستقبل تاریک ہے- اگر پاکستان اولمپک گیمز میں میڈل جیتنا چاہتا ہے تو ملک کے تمام بڑے مفتیان کرام کو فتویٰ دے کر کرکٹ کے کھیل کو حرام قرار دینا ہو گا۔ 
-----------------------------------------

پاکستانی سیاست: پاکستانی عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح فلم میں ہیرو، ہیروئن اور ولن کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ہے، اسی طرح سیاست میں بھی سیاستدانوں کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ہے۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ واقعی ایک بہتر اور مختلف سیاسی فلم دیکھنا چاہتے ہیں، یا واقعی سچی اور معیاری پرفارمنس چاہتے ہیں، تو انہیں اپنی ہپناٹائزشدہ آنکھوں اور سوئے ہوئے دماغ کو بدلتے ہیرو، ہیروئن اور ولن سے ہٹا کر حقیقی لوگوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جوسیاسی فلموں کو ممکن بناتے ہیں۔ یعنی ہدایت کار، پروڈیوسر، اسکرپٹ رائٹر، کیمرہ مین اور اسٹیج/سیٹ ڈیزائنرز وغیرہ۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا ہونے والا نہیں ہے کیونکہ آج کل زیادہ تر لوگ پروگرامڈ شدہ روبوٹس کی طرح ہیں جن کی زندگی کا واحد مقصد ٹک ٹاک پر اپنی ویڈیوز اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ کرنا، یوٹیوب پر کھانا پکانے کے چینلز چلانا، یا اپنے ٹی وی کے سامنے نیم بیحوشی کی حالت میں بیٹھ کر کوک اسٹوڈیواور پی ایس ایل دیکھتے رہنا ہے۔ ایک بات جو دلچسپ اورقابل غور ہے وہ یہ ہے کہ ان سیاسی فلموں کی کیٹیگری یا انواع بدل گئے ہیں، حالانکہ ان تمام فلموں کے پلاٹ وہی ہیں اوراسکرپٹ رائٹر، ڈائریکٹراور پروڈیوسر ان تمام سالوں میں وہی ہیں یا پھراسی  ہی ایک گروہ سے ہیں۔ ساٹھ سال پہلے کی (سیاسی) فلمیں ہلکے پھلکے ڈرامے ہوتے تھے جن میں حسب معمول ناچ اور گانا اوراداس مناظر ہوتے تھے۔ مرکزی فلم سنسر بورڈ کی طرف سے فلموں کو خاندان کے افراد کے ساتھ دیکھنے کے لیے بے ضرر اورٹھیک قرار دے کر پاس کیا جاتا تھا۔

پھر کامیڈی فلموں کا دور آیا۔ 
جس کے بعد بلیک کامیڈی کا دور آیا جس کے دوران ملک کے مشرقی حصے کو مغربی نصف کے کچھ انتہائی گھٹیا مسخروں اورمزاح نگاروں اور بے شرم و بے ضمیرڈائریکٹروں اور پروڈیوسروں نے بے دردی سے کاٹ کر الگ کر دیا۔  استعماری خیالات سے بھرے ذہنوں کے ساتھ اورنسلی تعصب کا شکار(وہ سب کچھ جو انہوں نے اپنے سفید فام آقاؤں اورسابقه حکمرانوں سے سیکھا تھا)، ان ظالم ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں نے ملک کے مشرقی حصے کے سیاسی اور غیرسیاسی اداکاروں اور فنکاروں کو یہ کہہ کریکسرمسترد کر دیا کہ وہ ایکشن اور ایڈونچر فلموں کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ انیس سو اکہتر کی بلاک بسٹر بلیک کامیڈی فلم (جو بالآخر ایک خوفناک ہارر مووی میں بدل گئی) کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہ جنسی تشدد، (اجتماعی اور انفرادی) عصمت دری کے مناظر اور خونریزی سے بھرپور تھی۔

یہ ایک المناک وقت میں ایک دل کو چھو لینے والی ، دل کو توڑ دینے والی اور دل دہلا دینے والی بیک وقت سیاسی اور غیر سیاسی فلم تھی۔ اس دور کے بعد ڈراؤنی فلموں کا دورباقائدگی سے شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے اور جس کے بنیادی اندازاورپلاٹ میں روایت کے مطابق بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی  ہے لیکن تشدد، خونریزی, قتل وغارت اورواضح اوربل واستہ جنسی مواد کے حوالے سے بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے۔

ایک اہم اوربڑی تبدیلی ان لوگوں میں آئی ہے جو عموماً پردے کے پیچھے ہوتے ہیں، یعنی ہدایت کار، سیٹ ڈیزائنر، پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر وغیرہ۔ ان میں سب سے بڑی تبدیلی ان کی انسانیت میں واضح انحطاط اور قومی، ثقافتی اور مذہبی وقار کے مکمل طور پر ختم ہو جانا ہے۔ یہ ساری پستی اور تنزلی ان کی نئی انتہائی پرتشدد، بے ہودہ اور فحش ہارر(ڈراونی) فلموں میں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ اس جیسی پرتشدد اور فحش فلم ان دنوں اسلام آباد کے تمام اہم سیاسی اور غیر سیاسی، یعنی نیوٹرل، سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔ 
-------------------------------------------------

آج کل کے فیشن ایبل اور مصنوعی طور پر مقبول ملحد سے : "وہ نہیں جو تم ظاہر کرتے ہو، لیکن حقیقت میں تم فکری طور پر اتنے سطحی اور علمی اعتبار سے اتنے کھوکھلے اور بے ہودہ کیوں ہو"؟ گویا انسان کا سارا شعورو وجود، اس کا ماضی، حال اور مستقبل مادیت پر مبنی ہے یا صرف مادے پر منحصر ہے۔  نادان آدمی، کیا خالصتا حیاتیاتی سطح پر شہد کی مکھی اپنے چھتے سے پہلے موجود ہو سکتی ہے؟ ہم انسان اپنی سب سے ابتدائی کہانیوں یا داستانوں سے پہلے موجود نہیں ہو سکتے۔ یہ وہ الہامی، دیوتائی قصے یا مقدس اور کثیرالجہتی کہانیاں ہیں جو ہمیں کائنات کی تکوین اورجوہمیں ہماری اصلیت بتاتی ہیں۔ 
(سلویا ونٹرس نے مارکسزم چھوڑتے ہوئے کچھ ایسے ہی الفاظ کہے)
--------------------------------------------
 

For more: Harf e Dervaish #4 Harf e Dervaish #3 Harf e Dervaish #6

And, some more: A Lament for Quetta  Hussainabad


No comments:

Post a Comment

The World on Fire

  The World on Fire “To put the world in order, we must first put the nation in order; to put the nation in order, we must first put the fa...