حرف درویش
حکمت کی باتیں مومن کی کھوئی ہوئی چیزیں ہیں۔ اسے جہاں کہیں بھی ملے ان پر دعویٰ کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔
(حدیث)
میں یقین کرتا ہوں تاکہ میں سمجھ سکوں۔
(سینٹ آگسٹین)
زندگی کا مقصد عظیم سےعظیم تر چیزوں کے مقابلے میں شکست کا مزہ چکھنا ہے۔
(ایرک ماریا رلکے)
---------------------------------------------------------
میرے کوئٹہ وال دوستو(اور اس بلاگ کے دیگر تمام معززقارئین) : کوئٹہ کے اس عاجزلغڑی کو اپنی دوربین اور خوردبین سمجھیں جو آپ کو بہت دوراور بہت چھوٹی چیزوں کو دکھانے کی عاجزانہ کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں جدیدیت کے غالب شعور، مادیت پسند تہذیب، اورگستاخانہ کلچر نے جان بوجھ کر ہم جیسے لوگوں کے لیے دیکھنا مشکل بنا دیا ہے۔ اس مسلط شدہ ذہنی اوربصری اندھے پن کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے کچھ کومیں یہاں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہاں، یہ سچ ہےکہ میں یہ سب کچھ اپنے مخصوص، غیر روایتی شاید غیرمتوقع اوربعض اوقات خبطی، علمی اور ادبی انداز میں کرتا ہوں جس سے آپ اتفاق یا اختلاف کر سکتے ہیں۔ چاہے آپ متفق ہوں یا نہ ہوں، وہ یقینی طور پر آپ کا اپنا اختیارواستحقاق ہے- اور اب، براہ کرم پڑھیں، سوچیں، لطف اٹھائیں اوران تحریروں کواپنے جیسے اچھے، فکری طور پر بالغ، جمالیاتی طور پرنفیس اورسمجھدار لوگوں کے ساتھ شئیر کریں۔
(درویش)
--------------------------------------------
اپنے دین کو ' جدید سائنسی طور پر یا سائنسی طریقوں سے' سمجھنا سورج کے وجود اور صداقت کی تصدیق کے لیے بالکل نابینا آدمی کی مدد لینے کے مترادف ہے۔
------------------------
پرانے اسپین کے لوگوں نے کہا ہے: وہ چھوٹی چھوٹی محرومیاں اور وہ چھوٹی چھوٹی مہربانیاں جو ان محرومیوں کو دور کرتے ہیں، ہم میں صبر، شکر اور توبہ کے فضائل کو ابھارتی ہیں۔
---------------------------
بے معنی جدید صارفی طرززندگی اوراس کے ماحولیاتی اور سماجی نقصانات
ہم ان ہمیشہ پیاسے لوگوں کی طرح ہیں جو اس چشمے کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے جس چشمے سے ہماری پیاس بجھانے والا پانی بہتا ہے۔
ہم ناشکرے، عاقبت نا اندیش اور غافل لوگ ہیں اور ان تمام چیزوں کے ماخذ اور اصل سے ناواقف ہیں جو ہماری زندگی کو برقرار رکھتے ہیں۔
اپنی جہالت پر مبنی تکبر کی وجہ سے ہم درخت کی وہی شاخ کاٹتے ہیں جن پر ہم بیٹھتے ہیں اور جن سے ہم اپنی غذا حاصل کرتے ہیں۔
ہم نے ضروریات کو خواہشات کے ساتھ الجھا دیا ہے۔
ہم نے حقیقی خوشی اور مستقل یا دیرپا باطنی اطمینان کو غیر ذمہ دارانہ مادیت پرستی سے الجھا دیا ہے۔
ہم نے اپنی شناخت کو اپنی ملکیت والی چیزوں کی تعداد یا مقدار کے ساتھ الجھا دیا ہے۔
ہم نے روحانیت کو نفسیات کے ساتھ الجھا دیا ہے، خاص طور پر ہمارے فتوی بازمذہبی رہنماؤں نے ۔
ہم نے یونیورسٹی کی ڈگری کو حقیقی تعلیم اورتربیت سمجھ لیا ہے۔
ہم نے غلطی سے مقدار کو معیار سمجھ لیا ہے۔
ہم نے "میں سمجھتا ہوں" کے ساتھ "مجھے پسند ہے" کو الجھا دیا ہے (سوشل میڈیا کے بے لگام استعمال کی بیماری) ۔ یہ دونوں ہمیشہ ایک جیسی چیزیں نہیں ہوتی ہیں، خاص طور پر اس نئے علمی اور اخلاقی طور پر آلودہ پوسٹ ماڈرن تاریک دور میں۔ اکثر، یہ ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہوتے ہیں۔
اور ہم اس سارے پاگل پنے کو، اس پر تشدد حماقت کو "تہذیب"، "ارتقاء" اور "ترقی" سمجھتے ہیں اورنشے میں دھت بیوقوفوں کی طرح ان کا جشن مناتے ہیں۔
----------------------------------------
جس طرح ایک پودا روشنی کی طرف رخ کرنے میں کوئی غلطی نہیں کرتا، اسی طرح انسان وحی کی پیروی میں اور اس کے نتیجے میں دین کی پیروی میں کوئی غلطی نہیں کرتا۔ (عیسٰی نورالدین)
----------------------------------------
جدیدیت کے شیر کی سواری
ہم سب جدیدیت کے شیر پر سوار ہیں- اس جدید دنیا میں جو ہر لمحہ اور ہر قیمت پرروایتی اورماقبل جدیدیت یا غیرجدید دنیا (یعنی وہ دنیا جو مقدس علامتوں سے بھری ہوئی تھی ، یا جب لوگ ان تمام علامتوں کو اس طرح سمجھتے تھے جس طرح انہیں سمجھا جانا چاہئے) کی بے حرمتی پر متشدد اصرار کرتی ہے، یہ زندگی کی حقیقت اوراس زندگی کو جینے کی مشکل اور المناک حالت ہے ۔
ہم اس خوفناک اورخونخوار شیر کے ساتھ نہ تو استدلال کر سکتے ہیں، اور نہ ہی ہم اس کی پشت پر سے اپنی مرضی سے اتر سکتے ہیں۔
ہم صرف اور صرف ایک کام کر سکتے ہیں: شیر پرسواری کرتے رہنا یا اس پرمسلسل سوار رہنا۔
جس کا مطلب ہے کہ اس خوفناک اور پاگل درندے پر سوار رہنے کا طریقہ جاننا ہمارے لیے اشد ضروری ہے۔
ورنہ ہماری سفاکانہ موت ناگزیر ہے۔
اور نہ صرف اس پر ڈٹے رہنا، بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ جاننا کہ اسے اپنی مرضی اور خواہش، جو ان اقدار اور عقائد کی عکاسی کرتا ہے جن کا ماخذ ہماری مذہبی فکری اور روحانی روایات ہیں، کے تابع کیسے کیا جائے۔
درندے کو زیر یا ٹرین کرنے ( تربیت دینے) کا یہ طریقہ گویا اسے دوبارہ اس کی اصل فطرت کی طرف موڑنے جیسا ہوگا۔
صرف ایسا کرنے سے ہی ہم اپنا وقار، اپنی عزت، اپنی اقدار، مختصرا، اپنا مذہب یعنی اپنی انسانیت کو قائم وبرقرار رکھ سکتے ہیں۔
نوٹ: جدیدیت کے شیر پر سوار ہونا اصل میں جولیس ایوولا کا تصور ہے۔ میں نے اپنی سمجھ کے مطابق اس تصور کی تشریح کی ہے۔
----------------------------------------
زندگی
زندگی، بنیادی طور پر ہر جگہ ایک جیسی ہے۔ چاہے وہ طوغی روڈ ہو یا توکیو، پشتون آباد ہو یا پیرس، مری آباد ہو یا میلبورن، نچاری و نوا کلی ہو یا نیو یارک، لوڑی میدان ہو یا لندن۔ آخر میں، یہ وہی پرانا انسانی ڈرامہ ہے جس میں مختلف اداکار اور مناظر، ہدایت کار، ،موسیقاراور پروڈیوسر ہوتے ہیں۔ لیکن پلاٹ وہی رہتا ہے۔ مسائل کی نوعیت بدل جاتی ہے لیکن مسائل کبھی ختم نہیں ہوتے۔
سمندر وہی ہیں، برزخ وہی ہے اور ہم اسی برزخ پر پریشان، الجھن کی حالت میں اور کھوئے ہوئے کھڑے ہیں، سوچتے ہیں کہ کیا فیصلہ کریں یا کون سی منزل کا انتخاب کریں ۔
چیزوں کو دیکھنے کے اس طریقے پریا ان کی حقیقت کی اس وضاحت پر یقین کریں، کیونکہ یہ ایک ایسے شخص کا تجزیہ اور مشورہ ہے جس نے اس دنیا کے تمام براعظموں میں زندگی گزارنے کا تجربہ حاصل کیا ہے۔
-------------------------------------------
مرتد یا سابق مومن سے: تم اس بدقسمت اورنابینا فقیر کی طرح ہو جواپنا قیمتی وقت اوراپنی عمراپنے دل کی گہرائیوں میں دفن پاک اور مقدس نامیاتی
سونے کی تلاش میں دوردرازملکوں کے ریگستانوں کی آلودہ اورغیرنامیاتی خاک چاننے میں گزاررہا ہے
--------------------
اے سرگرداں ذرے، اپنے مرکزکی طرف لوٹ آؤ
اور وہ ابدی آئینہ بن جاؤ جسے تم نے دیکھا ہے
تم وہ کرنیں ہوجو دوردورتک تاریکیوں میں بھٹک گئی ہیں
لوٹ آؤ، اور ایک بار پھر اپنے وجود کے سورج میں ڈوب جاؤ، فنا ہو جاؤ۔
(فرید الدین عطار، میرا ترجمہ)
For more: Harf e Dervaish #6 Harf e Dervaish #7 Harf e Dervaish #1
And on Ramzan and fasting: On Fasting
No comments:
Post a Comment