Friday, June 30, 2023

TGB: Man and Nature (Urdu)

حق، خیر، جمال  

خدا کے گھر کے ایک سے زیادہ دروازے ہیں۔  (عیسیٰ نورالدین)

کچھ لوگ قصوروار ہیں لیکن ہم سب ذمہ دار ہیں۔  (ربی ابراہیم جوشوا)

انسان جانتا ہے کہ اسے مرنا ہے، جبکہ جانور نہیں جانتے۔ موت کا یہ علم انسان کے لافانی ہونے کا ثبوت ہے۔ چونکہ انسان لافانی ہے، اس کی صلاحیتیں اسے اس قابل بناتی ہیں کہ وہ اپنی دنیاوی ناپائیداری کا ادراک کر سکے۔ (عیسیٰ نورالدین)

باہر سے کوئی بھی شخص ہماری باطنی دنیا پر حکومت نہیں کر سکتا چاہے وہ کچھ بھی کرے یا کتنی ہی کوشش کرے۔ جب ہمیں اس حقیقت کا علم ہو جاتا ہے تو ہم حقیقی معنوں میں آزاد ہو جاتے ہیں۔   (گوتم بدھ)

یہ وہم کی طاقت ہے جو ہمیں گمراہ کرتی ہے۔ (افلاطون)

جب آنکھ دنیا کی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے تو دل کی بینائی بجھ جاتی ہے۔ (ابراہیم بن ادھم)

ایک سے زیادہ بار دہرائی جانے والی غلطی ایک شعوری فیصلہ ہے۔ (پاؤلو کوئلہو)

خوشی ایک تتلی کی طرح ہے جس کا تعاقب کیا جائے تو وہ ہمیشہ ہماری گرفت سے باہر رہتی ہے لیکن اگر آپ خاموشی سے بیٹھیں گے تو وہ آپ کے کندھے پر آکر بیٹھ جائے گی۔ (نتھینیل ہتھورن)

لوگ خوبصورت رنگین شیشے کی کھڑکیوں کی طرح ہوتے ہیں۔ جب سورج نکلتا ہے تو وہ چمکتے دمکتے ہیں، لیکن جب سورج غروب ہوتا ہے تو ان کی اصل خوبصورتی تب ہی ظاہر ہوتی ہے جب روشنی اندر سے ہو۔ (الزبتھ کوبلر راس)

جہالت ایسے راکشسوں کو پیدا کرتی ہے جو روح کے ان خالی جگہوں کو بھر دیتے ہیں جو علم کی حقیقتوں سے کبھی آشنا نہیں ہوئے تھے۔   (ہوریس مان)

درد کے دیس میں ہم سب اکیلے ہیں۔ (مئی سارٹن)

مذہبی انسان نجات پانے کے لیے پیدا ہوا ہے۔ نفسیاتی انسان خوش رہنے ، یعنی تفریح ​​اور دل لگی کرنے کے لئے پیدا ہوتا ہے۔ (وولف گینگ اسمتھ)

اس تاریک مابعد جدید، مابعد حقیقی دور میں، مغرب کا غیر مغربی دنیا کے ساتھ تعلق بنیادی طور پر شیطانیت کا مسئلہ ہے۔ اس حقیقت کو مغرب اور غیر مغرب کے باخبر مفکرین نے بالعموم قبول کیا ہے۔ (آشیس نندی)

جہاں انیسویں صدی کی مادیت نے ہر وہ چیز جو اعلیٰ، روحانی اور ماورائی تھی انسان کے ذہن کے لیے ناقابل رسائی بنا دی تھی، وہیں بیسویں صدی کی نفسیات نے نفس کے جہنم کے تمام دروازے کھول دیے۔ جدید انسان ایک جہتی، خالصتاً نفسیاتی وجود کے سوا کچھ نہیں ہے۔ (عبدالواحد یحییٰ)

ایک جدید سیکولر دانشور وہ شخص ہوتا ہے جس نے زیادہ تعلیم حاصل کی ہو لیکن جس کی ذہانت اس کی تعلیم سے کم ہو۔ (آرتھر سی کلارک)

آخری درخت کے کٹنے کے بعد، آخری دریا کے آلودہ ہونے کے بعد، آخری مچھلی کے پکڑے جانے کے بعد، تب ہی آپ کو احساس ہوگا کہ پیسہ کافی نہیں ہے، صرف پیسہ ہی زندگی کا واحد مقصد نہیں ہے۔ امید ہے کہ آپ آخرکار سمجھ جائیں گے کہ پیسہ زندگی کے اس قیمتی تحفے کو برقرار نہیں رکھ سکتا، وہ تحفہ جو خدا نے ہم سب کو، انسانوں اور دیگر تمام مخلوقات کو دیا ہے۔ (شمالی امریکہ میں سفید فام استعمار کے نام ایک کری ریڈ انڈین چیف کا پیغام)

----------------------------------------------------------------------------

مابعد جدید ٹرانس ہیومینزم کا نیا زہریلا نظریہ بلند آواز سے یہ اعلان کرتا ہے کہ انسان نہ عبد ہے اور نہ خلیفہ، بلکہ خدا ہے (نعوذ باللہ) ۔ اور ہاں، یہ انیسویں صدی کے اس خبطی شخص فریڈرک نطشے کے پرانے نعرے کا تازہ ترین لیکن کسی حد تک مسخ شدہ ورژن ہے۔

اکیسویں صدی میں ہماری یہ دنیا اپنی تمام بدصورتیوں، اپنی تمام تر سماجی بدحالیوں، ماحولیاتی آفات اور اخلاقی انحطاط کے ساتھ درحقیقت جدید "شعور" کے ایک پروجیکشن کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جیسے اندر، ویسے ہی باہر۔ جدید انسان نے اس دنیا کواپنی شبیہ کے مطابق بنایا ہے۔ ہم اسے اور اس کی شاندار "تہذیب" کو مبارکباد پیش کرتے ہیں!

------------------------------------------

اس بلاگ کے تمام قارئین کو عید مبارک۔       (درویش علی)


For more, click:

Bumper Stickers


Thursday, June 1, 2023

Illuminations #6 (Urdu)


"The light shineth in the darkness, but the darkness comprehendeth it not."
----------------------------
"Two men are in me: one wants what God wants; The other, what the world wants, the devil, and death."                          Angelius Silesius

اندھیرا اجالا 
 
آپ کی بیماری آپ سے ہے، لیکن آپ کو اس کا احساس نہیں ہے۔ آپ کا علاج آپ کے اندر ہے، لیکن آپ کو اس کا احساس نہیں ہے۔ آپ فرض کرتے ہیں کہ آپ ایک چھوٹی ہستی ہیں، جب کہ آپ کے اندر پوری کائنات سمٹی ہوئی ہے۔ بے شک تم ہی وہ روشن کتاب ہو جس کے حروف تہجی سے تمام پوشیدہ اسرار کھل جاتے ہیں۔ لہذا، آپ کو اپنے آپ سے باہر دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے. آپ جس چیز کو تلاش کر رہے ہیں وہ آپ کے اندر ہے، اگر آپ غور کریں۔  (امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام)

"گناہ وہ غلطیاں ہیں جو عمل میں لائی جاتی ہیں۔" (عیسیٰ نورالدین)

جب انسان نے آسمانی اقدار کو رد یا کھو دیا تو وہ وقت کا شکار ہو گیا۔ وقت وہ زوال ہے جو ہمیں ہمارے اصل وجود سے دور لے جاتا ہے۔ (عیسیٰ نورالدین)

"ہم اپنی زندگی کیسے گزاریں گے اس کے بارے میں ہمارا فیصلہ اس بات پر منحصر ہوگا کہ ہم کس چیز کو حقیقی سمجھتے ہیں، یا ہم کن تجربات کو حقیقی سمجھتے ہیں۔" (مارٹی گلاس)

اصل خطرہ یہ نہیں ہے کہ مشینیں ہم جیسی ہو جائیں گی۔ اصل خطرہ یہ ہے کہ ہم اپنی مشینوں کی طرح ہو جائیں گے۔ (اسٹینلے کبرک)

"خدا کے بغیر، سب کچھ جائز ہے، اگر کوئی خدا نہیں ہے، تو میں خدا ہوں."

 (فیودور دوستوفسکی ، اس کی کتاب میں ایک کردار)

"ایک ملحد جو اپنے عقلی مذہب سے گہری وابستگی رکھتا ہے وہ کنویں کی تہہ میں رہنے والے مینڈک کی طرح ہے، یہ مینڈک پہاڑوں کے وجود سے انکاری ہے، یہ واقعی ایک قسم کی منطق اور عقلیت ہے، لیکن  اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ "  (عیسیٰ نورالدین)

اگر آپ کوشش کرتے ہیں اور صحیح طریقے سے دیکھنا سیکھتے ہیں، تو کبھی کبھی آپ کو عجیب جگہوں پر روشنی دکھائی دیتی ہے۔ (جیری گارسیا)

--------------------------------------------------------------------

ایک پرانی عرفانی حکمت ہے جو ہمیں بتاتی ہے۔

"جب چیزیں حقیقی ہوتی ہیں تو ان کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ لیکن جب وہ حقیقی نہیں رہتے تو پھر ان کو کئی نام مل جاتے ہیں۔"

احسان اور سخاوت کا ہر عمل اس وقت باطل ہو جاتا ہے جب اس کی تشہیر کی جاتی ہے اور یہ منافقت کا ایک سنگین فعل بن جاتا ہے۔ منافقت اور خود پرستی. شرک-

پاکستان میں منظم منافقت کے اس مکروہ عمل کو اس جالندری یزیدی خنزیر ضیاء الحق نے ملک کے بیمار اورکرم خوردہ کلچر کا حصہ بنا یا۔

ہر عمل اب ڈرامہ بازی لگتا ہے۔ ہر احسان درحقیقت نقاب پہنے ہوئے ظلم ہے۔ سخاوت کا ہر عمل خود غرضی اور خود پرستی اور خود کو فروغ دینے کے برے عمل کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لوگ اب ہر چیز کے بارے میں مکمل طور پر مشکوک ہو چکے ہیں

پرانے زمانے میں لوگ فطری طور پر اچھائی ، نیکی اور حق پر یقین اور برائی پر شک کرتے تھے کہ کوئی چیز بری ہے یا نہیں، کوئی برا ہے یا نہیں۔ اعتماد کی کوئی کمی نہیں تھی۔ ہر ایک کو دوسرے لوگوں پر بہت اعتماد تھا۔ لوگوں کو دوسروں کے کاموں اور ان کی باتوں پر بھروسہ تھا اور لوگ بغیر کسی معقول وجہ کے دوسروں پر شک نہیں کرتے تھے۔ اب ثبوت کا بوجھ نیکی اور حق کے کندھوں پر ہے۔ جب تک کوئی بھی شخص یا کوئی چیز , بات یا عمل اچھا اور صحیح ثابت نہ ہو جائے ہر کوئی ہر چیز کو فطری طور پر برا سمجھتا ہے۔ ہر چیز اور ہر ایک کے بارے میں شکوک و شبہات کرنا ایک فطری عمل بن گیا ہے، جب کہ بھروسہ ایک نایاب چیز بن گئی ہے۔

----------------------------------------------------------------------

جاہلیت کا نیا مابعد جدید دور جس میں اب ہم سب جی رہے ہیں بنیادی طور پر تین چیزوں سے ناواقف ہونے پر مشتمل ہے: اول یہ کہ یہ نہیں جانتا کہ خدا کون ہے۔ دوسری بات، یہ نہیں جانتا کہ انسان کیا اور کون ہے اور، تیسری، یہ نہیں جانتا کہ زندگی کیا ہے.
مابعد جدیدیت کا یہ تاریک دور حقیقت میں تنہائی اور بوریت کا دور ہے۔  یہ تمام روایتی انسانی خوبیوں کو آلودہ کرتا ہے اور بالآخر انہیں تباہ کر دیتا ہے اور انسانی تعلقات کو ایک کاروبار کی طرح خالصتاً دنیاوی فائدے اور نقصان کے ایک میکانی اور غیر نامیاتی , یعنی بے جان اور غیر انسانی نظام میں  تبدیل کر دیتا ہے۔
چونکہ یہ ایک فرد کی زندگی سے تمام ضروری معنی خارج کردیتا ہے، اس لیے یہ ہر ایک کو اندرونی طور پر،  یعنی نفسیاتی اور روحانی طور پر کمزور اور بے بس کر دیتا ہے۔ اس روحانی بیماری کے زیر اثر ہر کوئی اجنبی کی طرح ہو جاتا ہے۔ لوگ لوگوں کے ساتھ  رہتے ہیں لیکن سب اکیلے ہیں۔ ہر جگہ بالکل تنہا اور قابل رحم غمگین لوگوں کا ہجوم لگتا ہے جیسا کہ ایک امریکی ماہر عمرانیات رابرٹ پٹنم نے لکھا ہے۔


 جب ان اجنبی اور تنہا لوگوں پر آفت آتی ہے تو ان کے پاس کوئی حقیقی اور حساس انسانی نیٹ ورک نہیں ہوتا ہے۔
اس طرح کے غیر انسانی معاشرے میں یہ تنہا اور اجنبی لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اسی طرح تعلق رکھتے ہیں جس طرح ایک کسبی اپنے گاہکوں سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ قابل رحم گاہک پیسے کے بدلے کئی طرح کی سماجی کسبیوں میں مسلسل اس گمشدہ سکون، کھوئی ہوئی محبت اور کھوئے ہوئے معنی کی تلاش میں  رہتے ہیں --  وہ سکون، وہ محبت اور وہ معنی جسے جدیدیت اور اس کے عصری مظہر مابعد جدیدیت نے تباہ کر دیا ہے۔
یہ کسبی اب ہمارے چاروں طرف ہیں۔ وہ ہر جگہ ہیں۔ وہ مختلف شکلوں میں آتے ہیں اور زندگی کے مختلف شعبوں میں ماہر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ وہ گدھ اور مردہ گوشت کھانے والے جانور کی طرح ہیں، ہمیشہ کمزوروں، سادہ لوحوں یا ان لوگوں کا شکار کرتے ہیں جنہیں آسانی سے دھوکہ دیا جا سکتا یا بے وقوف بنایا جا سکتا ہو۔
یہ کسبی کبھی کبھی مذہبی نقاب پہنتے ہیں اوراپنے عقیدے کی محبّت اور تحفظ کی آڑ میں اس کے خلاف بدترین گستاخیاں کرتے ہیں۔
وہ بعض اوقات "موٹیویشنل سپیکرز" کے روپ میں نمودار ہوتے ہیں اور اپنے مکروہ اورمنافقانہ ہتھکنڈوں سے لوگوں کو لوٹتے ہیں۔
وہ خاکی وردی اور فوجی بوٹوں میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ دجالی خنزیرروں کا ٹولہ قومی سلامتی اور تحفظ کا وعدہ کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ خون چوسنے والے جرائم پیشہ مافیاز ہیں جو معاشرے کے پورے نظام پرایک دیو ہیکل زہریلے آکٹوپس کی طرح قابض ہیں۔
--------------------------------------------------------
جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے شدید اور بے رحمانہ حملے کی زد میں روایتی معاشروں میں ثقافتی طور پر جڑ سے اکھڑے  ہوۓ اور روحانی طور پر پسماندہ اور مکمل طور پر منحرف نوجوانوں کے لیے ایک بروقت اور اہم سوال۔
پیارے دوست، آپ کیسے جان سکتے ہیں کہ آپ نے کیا کھو دیا ہے؟ جو آپ نے نہیں دیکھا، جس کا تجربہ نہیں کیا، آپ اس کے نقصان کو کیسے محسوس اور سمجھ سکتے ہیں؟ جدید تعلیمی نظام اور جدید ثقافت آپ کو منظم طریقے سے جس چیز کو فرسودہ سمجھنا اورمکمل طور پر فراموش کرنا سکھاتی ہے، آپ اس کے نقصان کو کیسے سمجھ سکتے ہیں , اس کے نقصان کو کیسے محسوس کر سکتے ہیں؟ 
آخرکار ہم فریب اور جہالت کے ایسے تاریک دور میں رہتے ہیں کہ ہم میں سے بہترین شخص بھی اپنی فکری، اخلاقی اور روحانی صلاحیتوں سے محروم ہونے کے لیے بہت آسانی سے دھوکہ کھا سکتا ہے۔
 
-------------------------------------------------------------

آج کل لوگ اکثر اپنی بیویوں، بہنوں، بچوں، ماؤں کے کلپس انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پرپوسٹ کرتے ہیں۔ ان ویڈیو کلپس میں انہیں اپنی ان خواتین رشتہ داروں کے ساتھ عجیب و غریب حرکتیں کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ سب سے زیادہ احمقانہ، سب سے زیادہ نمائشی اور سب سے زیادہ فحش کلپس سب سے زیادہ ملین ویوزاورلائکس حاصل کرتے ہیں۔ مابعد حقیقت دنیا کا ورچوئل جہنم ایک بہت بڑا، بے ہودہ چڑیا گھر ہے جس میں ان غیرانسانی مخلوقات کو دنیا کے دیکھنے کے لیے رکھا جاتا ہے، اور تماشائیوں کوان بے ہودہ مخلوقات کو دیکھ کر لطف اندوز ہونے کے بعد، انہیں ان جانوروں کی نقل کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ یہ تمام درندے جو صرف شکل و صورت سے انسان لگتے ہیں اورایسا لگتا ہیں کہ ان میں تمام انسانی صفتوں کا مکمّل  طورپرخاتمہ ہو چکا ہے مسلسل "میمز" بنانے اور"مزے" کرنے میں مصروف رہتے ہیں!
----------------------------------------------------------- 

ہمارا تاریک دور: آپ کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ آپ یا تو روحانی جنگجو ہیں یا بت پرست مشرک۔


The World on Fire

  The World on Fire “To put the world in order, we must first put the nation in order; to put the nation in order, we must first put the fa...