روشنیاں
ریت کے ذرے میں کائنات کو دیکھنا
اور جنگلی پھول میں جنت کو دیکھنا
اپنے ہاتھ کی ہتھیلی میں لامحدودیت کوتھامنا
اورایک لمحے میں ابدیت کوسمیٹنا، اسیرکرنا
(ولیم بلیک)
خوبصورتی دنیا کو بچائے گی۔ (فیوڈور دوستوفسکی)
--------------------------------------------------------------------
خدا اور ایک مکھی
ایک مکھی پھول کے اندر ہے۔
ایک پھول باغ کے اندر ہے۔
ایک باغ مٹی کی باڑ کے اندر ہے۔
گاؤں کے اندرمٹی کی ایک باڑ لگی ہوئی ہے۔
ایک گاؤں جاپان کے اندر ہے۔
جاپان دنیا کے اندر ہے۔
دنیا خدا کے اندر ہے۔
اور اس طرح، خدا ایک چھوٹی مکھی کے اندر ہے۔
( میسوزو کانیکو، ( پلکوں پر قوس قزح) جاپانی سے اردو میں ترجمہ)
------------------------------------------------------------
ایک چھوٹا پرندہ، ایک گھنٹی اور میں
اگرچہ میں اپنے بازو چوڑے کھولتی ہوں، پھر بھی میں آسمان پر نہیں اڑ سکتی۔
لیکن ایک چھوٹا سا پرندہ جو اڑ سکتا ہے، زمین پر میری طرح تیز نہیں دوڑ سکتا۔
اگرچہ میں اپنے جسم کو ہلا تی ہوں، پھر بھی میں گھنٹی کی طرح خوبصورت آواز نہیں نکال سکتی ۔
لیکن وہ گھنٹی اپنی خوبصورت بجتی ہوئی آواز کے ساتھ، میرے جتنے گیت نہیں جانتی۔
ایک گھنٹی، ایک چھوٹا پرندہ اور میں
ہم سب مختلف ہیں اور ہم سب خوبصورت ہیں۔
( میسوزو کانیکو، ( پلکوں پر قوس قزح) جاپانی سے اردو میں ترجمہ)
------------------------------------------------------------------
معمہ
میں اپنے آپ کو یہ تعجب کرنے سے نہیں روک سکتی کہ کالے بادلوں سے گرنے والی بارش کے قطرے چمکدار چاندی کی طرح کیوں ہوتے ہیں۔
میں اپنے آپ کو یہ تعجب کرنے سے نہیں روک سکتی کہ کس طرح لوکی کا پودا کسی کے چھوئے بغیر خود ہی پھول اورکھل جاتا ہے۔
میں اپنے آپ کو تعجب کرنے سے نہیں روک سکتی ۔
اور جس سے بھی میں پوچھتی ہوں، وہ صرف ہنستے ہیں۔
اور کہتے ہیں، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
( میسوزو کانیکو، ( پلکوں پر قوس قزح) جاپانی سے اردو میں ترجمہ)
----------------------------------------------------------
فریڈی: ایک پتے کی کہانی
موسم بہار آیا
فریڈی جو ایک پتہ تھا، ایک اونچے درخت کی شاخ پر پیدا ہوا۔
فریڈی کی طرح سینکڑوں دوسرے پتے بھی اس درخت پر پیدا ہوئے۔
وہ سب ایک دوسرے کے دوست تھے۔
ایک ساتھ، وہ ہوا کے جھونکے میں رقص کرتے تھے اور روشن دھوپ والے دنوں میں نیلے آسمان کے نیچے کھیلتے تھے۔
ڈینیئل درخت کا سب سے بڑا پتہ تھا اور وہ فریڈی کا بہترین دوست تھا۔
وہ عقلمند تھا اوربہت سی چیزیں جانتا تھا۔
اس نے فریڈی کو بتایا اور سمجھایا کہ وہ پارک میں ایک بڑے درخت کا حصہ ہیں۔
اس نے فریڈی کو پرندوں، سورج اور چاند کے بارے میں بھی سمجھایا۔
فریڈی کو پتہ بننا پسند تھا۔
موسم گرما خاص طور پر اچھا تھا. اسے گرمیوں کے دن سب سے زیادہ پسند تھے۔
ان دنوں بہت سے لوگ پارک میں آتے تھے۔
ڈینیل نے کہا، 'آئیے ہم اکٹھے ہوں اور لوگوں کو کچھ سایہ فراہم کریں'۔
اس نے وضاحت کی کہ "خدا کی مخلوقات کو سایہ دینا ہمارے مقصد زندگی کا حصہ ہے۔ لوگوں کو خوش کرنا زندگی گزارنے کی ایک بہت اچھی وجہ ہے"۔
بوڑھے لوگ درخت کے نیچے بیٹھ کر پرانے وقتوں کی باتیں کرتے تھے۔
بچے درخت کے ارد گرد اور پارک میں بھاگتے اور ہنستے اور کودتے تھے۔
ان بچوں کو بھاگتے اور چھلا نگھیں لگاتے دیکھنا فریڈی کے لیے خوشی کا باعث تھا۔
اور پھر موسم گرما گزر گیا اور خزاں آ گئی۔
جلد ہی پتوں نے اپنا رنگ بدل لیا۔
کچھ سرخ ہو گئے اور کچھ پیلے ہو گئے۔
فریڈی جامنی ہو گیا۔
وہ سب بہت خوبصورت تھے۔
ایک دن ایک عجیب واقعہ ہوا۔
تیز ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے کچھ پتے اڑ گئے۔
سارے پتے خوفزدہ ہو گئے۔
ایک چیخا "یہ کیا ہو رہا ہے"؟
عقلمند بوڑھے پتے ڈینیل نے کہا ' پتوں کے گھر بدلنے کا وقت آ گیا ہے- کچھ لوگ اسے مرنا کہتے ہیں'۔
فریڈی نے پوچھا، 'کیا ہم سب مر جائیں گے'؟
ڈینیل نے جواب دیا 'ہاں، سب مرتے ہیں، ہم میں سے ہر ایک مرجائے گا'۔
فریڈی نے خوف زدہ آواز میں پکارا "میں نہیں مروں گا۔ میں مرنا نہیں چاہتا"۔
لیکن اس کے دوست یکے بعد دیگرے گرنے لگے- جلد ہی درخت تقریباً ننگا یعنی بے پتہ ہو گیا۔۔
فریڈی نے ڈینیئل سے کہا "میں مرنے سے ڈرتا ہوں"۔
ڈینیئل نے جواب دیا "ہم سب مرنے سے ڈرتے ہیں۔ ہم سب ان چیزوں سے ڈرتے ہیں جو ہم نہیں جانتے"۔
اور اس نے مزید کہا "لیکن تم اس وقت نہیں ڈرے جب بہار موسم گرما میں بدل گئی، یا جب موسم گرما خزاں میں بدل گیا- تبدیلیاں فطرت کا حصہ ہیں"۔
فریڈی نے پوچھا "کیا ہم بہار میں واپس آئیں گے"؟
بوڑھے پتے نے کہا "میں نہیں جانتا، لیکن زندگی واپس آ جائے گی. زندگی ہمیشہ رہتی ہے اور ہم سب اس کا حصہ ہیں"۔
فریڈی نے شکایت کی "ہم صرف گرتے ہیں اور مرتے ہیں۔ ہم یہاں کیوں ہیں اور کس کے لیے"؟
عقلمند دوست نے جواب دیا 'دوستوں کے لیے، دھوپ اور چھاؤں کے لیے۔ کیا تمہیں وہ ٹھنڈی ہوا، وہ خوش لوگ اورموسم خزاں کے وہ تمام خوبصورت رنگ یاد نہیں؟
"کیا یہ سب کافی نہیں ہے"؟
اس سرد شام کے آخری پہر، ڈینیل مسکراتے ہوئے درخت سے گرا۔
فریڈی اب درخت کی اس شاخ پر واحد پتہ رہ گیا تھا۔ باقی تمام پتے گر چکے تھے۔
سردیوں کے موسم کی پہلی برف اگلی صبح پڑی۔
ایک تیز ہوا آئی اورتنہا فریڈی کو اس کی شاخ سے اٹھا کر لے گئی- اسے بالکل تکلیف نہیں ہوئی۔
گرتے ہی اس نے پہلی بار پورا درخت دیکھا۔
اور اسے ڈینیئل کے الفاظ یاد آئے "زندگی ہمیشہ کے لیے رہتی ہے"۔
فریڈی نرم اورتازہ برف پر اترا۔
وہ پرسکون تھا۔ اس نے آنکھیں بند کرلی اورسو گیا۔
اسے یہ معلوم نہیں تھا لیکن درخت اور زمین پر سرگوشیاں شروع ہو چکی تھیں۔ یہ سرگوشیاں جو کہ موسم بہار میں نئے پتوں کے نئے منصوبوں کے بارے میں تھیں میٹھے اور سریلے نغموں کی طرح تھیں۔
(دی فال آف فریڈی دی لیف از لیو بسکاگلیا۔ میرا اردو ترجمہ)
--------------------------------------------
صبر ۔ شکر۔ توبہ
The Fall of Freddie the Leaf ( a story by Leo Buscaglia)
For more, Illuminations #1 Harf e Dervaish#6 Harf e Dervaish #2, Solitude
No comments:
Post a Comment