Friday, April 1, 2022

Harf e Dervaish #10 (Urdu)


حرف درویش

دوسرے لوگوں کے مطابق حق (الحق) کو جاننے کی کوشش نہ کرو۔
بلکہ پہلے حق کو جانو-- تب ہی تم اہل حق کو پہچانو گے۔

امام علی علیہ السلام

----------------------------------------------------------

اس پوسٹ میں، ہم یاد رکھنے، یا یادداشت اور بھولنے کے اعمال پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کریں گے۔

ہم کون ہیں اور کیا ہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمیں کیا یاد ہے اور ہم کیا بھول گئے ہیں۔  یادداشت کا ہماری شناخت کی تشکیل میں اہم کردار ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جو ہمیں یاد نہیں ہے وہ بھی ہمارے شناخت کے احساس کو، ہمیں اور ہمارے معاشروں کو متاثر کرتا ہے۔ ہمارا حال ہمارے ماضی سے اتنا ہی متعین ہوتا ہے جتنا ہمارا مستقبل ہمارے حال سے متعین ہوتا ہے۔ اور جیسا کہ جارج آرویل نے کہا ہے، 'جو ماضی کو کنٹرول کرتا ہے وہ مستقبل کو کنٹرول کرتا ہے، جو حال کو کنٹرول کرتا ہے، وہ ماضی کو کنٹرول کرتا ہے'۔ 
 
ہیگل اور سانتیانا جیسے فلسفیوں نے تاریخ اور ماضی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ فلسفہ اور تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ جب بھی ہم ماضی کو بھول جاتے ہیں، ہم ماضی کی غلطیوں کو دہراتے ہیں۔ ہمارے آگے دیکھنے کی بصارت وہی ہے جو ہمارے پیچھے دیکھنے کی بصارت ہے جب ہم ماضی کو بھول جاتے ہیں تو ہم اپنے مستقبل کا تصور نہیں کر پاتے۔ اور جب ہم اپنے مستقبل کا تصور نہیں کر سکتے تو ہم اپنا حال دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں جن کے پاس وژن ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اگر آپ کسی شخص کے حال کو ختم یا تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو اس شخص کے مستقبل کے وژن کو تباہ کرنے کی ضرورت ہے۔  یا، آپ کو اسے خواب دیکھنے سے روکنے یا اس کے خواب لوٹنے کی ضرورت ہے۔

اور یہی بات معاشروں اور ثقافتوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔  جن معاشروں نے اپنے مستقبل کے بارے میں تصور کرنا چھوڑ دیا ہے، یا جن ثقافتوں اور تہذیبوں نے خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے، تباہی ان کا مقدر ہے۔ آپ کے ساتھ سب سے بڑی بدقسمتی اور بد بختی یہ ہو سکتی ہے کہ آپ، دیدہ و دانستہ یا نا دانستہ طورپر، دوسروں کو اپنے خواب دیکھنے دیں اوراس سے بھی بدترآپ کے لیے یہ ہے کہ آپ انہیں ان خوابوں کی تعبیر ان کی اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق کرنے دیں۔ 
میرے یہ سب کہنے کی وجہ قارئین کو ایک بہت اہم نکتے کی طرف لانا ہے۔ وہ اہم نکتہ یہ ہے۔۔ 

جس طرح فطری دنیا میں قانون ہے کہ 'کھاؤ ورنہ دوسرے تمہیں کھا جائیں گے'، اسی طرح سماجی دنیا میں قانون ہے، ' اپنے آپ کو خود متعین کرو ورنہ دوسرے آپ کی حد بندی اورترجمانی کریں گے'۔
--------------------------------------------------------------

کہانیاں ہمیں کیا سکھاتی ہیں؟
(جین یولن کی ایک نظم)

اگر تم راکھ کے ڈھیروں پر بیٹھ کر روتے رہو
اس انتظار میں کہ کوئی تمہیں بچا لے
تو گندے ہاتھوں اورتھکی ہوئی خوابیدہ آنکھوں کہ سوا تمہیں کچھ نہیں ملے گا

اگرتم لہلہاتے کھیتوں کے بیچ بے دست و پا کھڑے ہو کر
یہ امید لگائے رکھو کہ کوئی تمھیں کھلائے پلائے
تو تم اپنے فاقے کا بہترین بندوبست کر رہے ہو

اٹھو

اٹھو اوراندھیری رات کی تاریکی میں اپنے تمام خیالی قلعوں کو مسمار کر دو
فجر کی آمد تک، اپنے تمام جعلی معجزوں کو تباہ وبرباد کر دو
اپنے تھکاوٹ سے چور بازؤں سے
اپنے آپ کو اوپر کھینچو
اپنے نیم مردہ جسم کو گھسیٹو
اور آب حیات کے کنوئیں تک رسائی حاصل کر لو

اٹھو

اور انھی شکستہ بازؤں سے زندگی کی لہرکا لمس محسوس کرو
آنسؤں سے سلطنتیں نہیں بنتی
قوموں کی بنیادوں کا گھارا پسینے سے بنایا جاتا ہے
آنسوں اور پسینہ
دونوں ایک جیسے لگتے ہیں
مگران دونوں میں سے صرف ایک پر تمہاری آزادی منحصر ہے
صرف ایک سے تمہاری بقا ممکن ہے

(جین یولن، اردو ترجمہ)
-----------------

مابعد جدیدیت: سچائی (حق) نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہرسچ کا دعویٰ جبری من مانی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ سوائے اس دعوے کے۔
------------------

 اگرمابعد جدیدیت کے اس غیر انسانی دور میں آپ اپنی انسانیت کو برقراررکھنا چاہتے ہیں تو یقینی بنائیں کہ کچھ بھی نہ بھولیں۔ 
کیونکہ 
ظلم کے خلاف لوگوں کی جدوجہد بھولنے کی بیماری کے خلاف یاداشت کی جدوجہد  ہے۔   (میلان کنڈیرا)
--------------------

مشرق میں (مغربی) جدیدیت: هوشیاررہیں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو چیزیں آپ بھول جاتے ہیں، یا آپ کو بھولنا سکھایا جاتا ہے، وہ ہمیشہ ان چیزوں سے زیادہ اہم ہوتی ہیں جو آپ کو یاد ہوتی ہیں، یا یاد رکھنا سکھایا جاتا ہے۔ 
--------------------

سوشل میڈیا: آج کل حریم شاہ کے نئے لباس سے لے کر کوانٹم فزکس تک دنیا اور کائنات کی ہر چیز کے بارے میں ہر کوئی اپنی رائے رکھتا ہے۔ اور اگر آپ ایذا رسانی، دھونس، بدسلوکی، بلیک میلنگ اور یہاں تک کہ تشدد سے بچنا چاہتے ہیں، تو آپ کو ہر ایک کی رائے کو ہمیشہ پسند یا 'لائک' کرنا ہوگا۔ فیس بک، ٹِک ٹاک اور یوٹیوب نے ہر ایک کو پروفیسر، فلسفی، ماہرِ دین، سیاسی تجزیہ کار، مذہبی سکالراور فنکار بنا دیا ہے ہم ایک دلچسپ دور میں رہتے ہیں، جیسا کہ پرانے چینی مفکرین کہتے ہیں۔ جہالت اب علم ہے، جس طرح علم اب جہالت ہے۔ جاہلیت کے اس نئے تاریک دور میں خوش آمدید۔

-------------------------

اس بلاگ کے تمام قارئین کو رمضان مبارک۔


For more, click: Harf e Dervaish#7 Harf e Dervaish#6  Uncle Marx



1 comment:

  1. شکستہ بازؤں سے زندگی کی لہرکا لمس محسوس کرو
    آنسؤں سے سلطنتیں نہیں بنتی
    قوموں کی بنیادوں کا گھارا پسینے سے بنایا جاتا ہے
    آنسوں اور پسینہ دونوں ایک جیسے لگتے ہیں

    جہالت اب علم ہے، جس طرح علم اب جہالت ہے۔ جاہلیت کے اس نئے تاریک دور خوش آمدید
    بہت خوب 👍

    ReplyDelete

The World on Fire

  The World on Fire “To put the world in order, we must first put the nation in order; to put the nation in order, we must first put the fa...