Wednesday, March 30, 2022

Harf e Dervaish #9 (Urdu)


حرف درویش

کامل خوشی خوشی کی عدم موجودگی ہے۔ (چوانگ زو)
-----------

جدیدیت: عدم میں دم گھٹنے سے مرنے کا ایک طریقہ ۔ (عبدالحکیم مراد)
--------------

ہم ڈاکٹر نہیں ہیں۔ ہم بیماری ہیں. (الیگزینڈر ہرزن)
-----------------------------------------------------------------------------------

میری تحریروں کے ایک دلچسپ، اکثرمہذب وشائستہ لیکن غلط معلومات یا ناقص علم کی وجہ سے، کسی حد تک گمراہ قاری کی طرف سے- یہ وہ محترم ہیں جو اکثرمیرے خیالات اوردلائل پراس انداز میں تنقید کرتے ہیں  ( نیچے) ۔ ان صاحب کے دلائل کو سمجھنا میرے لیے اکثر بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے میں نے پوری کوشش کی ہے کہ ان کی منصفانہ تشریح کروں۔ اگر تشریح میں کوئی غلطی ہو گئی ہو تو میں ان سے معذرت خواہ ہوں۔ اور میں ہمیشہ ان کے لیے دعا گو ہوں۔ (درویش)
-------------

،وہ فرماتے ہیں

آپ ہمیشہ ہم سے کینسرجیسے جدید بیماری سے بچنے اوراس سے نہ مرنے کا کیوں کہتے ہیں؟ ہم بھی کینسراورایڈزجیسی بیماریوں میں مبتلا ہونا چاہتے ہیں۔ ہم بھی کینسر سے مرنا چاہتے ہیں کیونکہ جدید ترین، پہلی دنیا یا زیادہ ترقی یافتہ دنیا کی جدید ترین بیماریوں میں مبتلا ہونا اوران بیماریوں سے مرنا ہمارے لئے انتہائی فخر کی بات ہے۔ ہیضہ ، ملیریا اور پیچش جیسی تیسری دنیا کی کم ترقی یافتہ یا پسماندہ بیماریوں سے مرنا ہمارے لئے انتہائی شرم کی بات ہے۔ ہم بھی مادی طورپرامیراورہماری رائے میں اعلیٰ تہذیب کی جدید ترین بیماریوں سے مرنا چاہتے ہیں۔  جس طرح زندگی ایک شخص کی سماجی حیثیت اورطبقے سے متعلق ہے، اسی طرح موت بھی اس کے طبقے اور سماجی حیثیت سے متعلق ہے۔ یہ ہماری زندگی کا مقصد ہے، ہماری دلی خواہش، ہمارا سب سے پیارا خواب ہے، یعنی امیرانا، شاہانہ اورشانداراسرافی طرز زندگی کی بیماریوں سے مرنا ۔ ہیضے سے مرنا ہماری امیدوں اورخوابوں پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہے- ہمارا خواب کینسراورایڈز میں مبتلا ہونا اورپھران کی وجہ سے شاہانہ انداز میں مرنا ہے کیونکہ یہ سب پہلی دنیا کی خوبصورت بیماریاں ہیں اور امیر اورمہذب لوگوں کی بیماریاں ہیں۔ یہ اعلی جی ڈی پی ممالک کی بیماریاں ہیں۔ اور کون ان بیماریوں سے مرنا چاہتا ہے جو کم جی ڈی پی ممالک کی علامت ہیں؟ کیا تم پاگل ہو؟ لہذا، ہمیشہ جدید ثقافت، جدید طرز زندگی اوران کی خوبصورت بیماریاں جیسے کینسرکے نقصانات کے بارے میں تبلیغ نہ کریں۔ ہم آپ سے بہتر جانتے ہیں۔ ہم اس لئے بہترجانتے ہیں کیونکہ ہم تیسری دنیا کے شہری ہیں اورصرف اورصرف اس تلخ حقیقت کی وجہ سے ہم ان معاملات میں اخلاقی طورپرہمیشہ اعلیٰ اورفکری طور پر ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔

تم ایک رجعت پسند لکھاری اورایک سیڈسٹ صوفی ہو (جس کے معنی مجھے نہیں معلوم)- کیونکہ تم ہمیں ترقی یافتہ اورترقی پسند دنیا کی سب سے عظیم ، سب سے زیادہ خوبصورت اور مہذب بیماریوں کی موت سے مرنے سے روکنا چاہتے ہو ۔

----------------------------------------------------------

شور, سکون اور تنہائی


بلیز پاسکل نے ایک بار کہا تھا: 'ہماری ناخوشی اور پریشانی صرف ایک چیز سے پیدا ہوتی ہے، وہ یہ کہ ہم اپنے کمرے میں تنہا آرام سے نہیں بیٹھ سکتے'۔
اس سے پہلے میں نے یہاں اپنی ایک پوسٹ میں پرانے کوئٹہ میں سادگی کے کلچر کی بات کی تھی۔ آج میں پرانے کوئٹہ کی زندگی کے ایک اور پہلو کے بارے میں چند الفاظ کہنا چاہتا ہوں۔  اور وہ شوراورخاموشی یا شوراورسکون کے بارے میں ہے۔ اس لحاظ سے پرانا کوئٹہ آج کے شہر سے بالکل مختلف تھا۔ کوئٹہ ایک پُرسکون پہاڑی شہر ہوا کرتا تھا، جہاں ملک بھرسے لوگ ہرقسم کے شوروغوغا سے بچنےاورآرام کرنے کے لیے آتے تھے۔ یہ پرانے نوآبادیاتی دنوں سے ایک پرسکون پہاڑی اسٹیشن ( ہل سٹیشن) کی شناخت اور شہرت رکھتا تھا۔ انیس سو اکہتر کی جنگ میں شہید ہونے والے میرے چچا کوئٹہ کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ کوئٹہ کی راتیں اورکوئٹہ کا پانی دنیا میں کہیں نہیں ملتا۔ 

یہ گرمیوں میں ٹھنڈا اورہمیشہ صاف ستھرا شہر ہوا کرتا تھا۔  لوگوں کے پاس زندگی کی اتنی زیادہ سہولتیں نہیں تھیں جتنی آج کل ہیں، لیکن ان میں اپنائیت کا گہرا احساس، فرض اورذمہ داری کی سمجھ بوجھ یا مختصر یہ کہ ان کے پاس ایک گہرا شہری احساس ہوتا تھا۔ کیونکہ ہرکوئی ہرکسی کو جانتا تھا اس لیے لوگوں میں شرم و حیا کا احساس ہوا کرتا تھا۔ جب چھوٹے شہر بڑھتے ہیں اور بڑے شہر بن جاتے ہیں تو سب اجنبی بن جاتے ہیں۔  بلخصوص جب توسیع افراتفری میں یا بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہو۔ اور ہم جانتے ہیں کہ مکمل اجنبیوں کے درمیان تعلق ایک دوسرے کو جاننے والے لوگوں کے درمیان تعلق جیسا نہیں ہوتا ہے۔  روایتی امریکی کسان اورشاعروینڈیل بیری نے کہا ہے کہ اگر آپ نہیں جانتے کہ آپ کہاں ہیں، تو آپ نہیں جانتے کہ آپ کون ہیں۔ جن لوگوں کی کسی جگہ پر کوئی گہری جڑیں نہیں ہوتی ہیں وہ اس جگہ اور اس کی ثقافت کے بارے میں اس طرح محسوس نہیں کرتے جیسے وہ لوگ جو اس جگہ کی مٹی میں تاریخی اور ثقافتی جڑیں رکھتے ہیں۔  ایک لحاظ سے، آپ اس جگہ سے بالکل مشابہت رکھتے ہیں، درحقیقت، آپ وہی جگہ ہیں، جس طرح وہ جگہ آپ سے ملتی جلتی ہے، اوروہ بالکل وہی ہے جو آپ ہیں۔ مختصراً، یہ ایک بالکل مختلف جگہ ہوا کرتی تھی اور شوراورآلودگی کے اس جہنم سے کوئی مشابہت نہیں رکھتی تھی جو اب یہ شہر بن چکا ہے۔

تنہائی، خاموشی اور سکون ہماری نفسیاتی صحت اور ہماری روحانی نشوونما کے لیے بہت اہم ہیں۔  یہ تمام چیزیں پرانے کوئٹہ کے لوگوں کو دستیاب تھیں۔
اور شاید اسی وجہ سے ان کی قدریں مختلف تھیں اورزندگی، کام، رشتے، محبت اور  یہاں تک کہ موت کے بارے میں بھی ان کا نظریہ بہت مختلف تھا۔

جلال الدین رومی فرماتے ہیں۔


روحانی خوشی صرف تنہائی سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے دانا کنویں کی تہہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ کیونکہ کنویں کی گہرائی کا اندھیرا یہاں کے اندھیروں کو شکست دیتا ہے۔ وہ جو دنیا کی چمک دمک کے پیچھے بھاگتا ہے۔  وہ اپنے دل ودماغ اوراپنی روح کو کبھی نہیں بچا سکتا۔  آج کل ہرنیا گیجٹ یا مشین ہمارے لیے مزید آسانیوں اورسہولتوں کا اعلان کرتا ہے، لیکن درحقیقت ان کی اصل فتح ہماری اندرونی اور روحانی زندگی پر ہوتی ہے۔ بے شک، سہولت اور آسانی ہمیشہ مطلوبہ رہتی ہیں لیکن وہ ایک بیمار، غلامانہ انحصار کو بھی جنم دیتے ہیں۔ جب ہم کوشش اور مشکل سے گریز کرتے ہیں، جب ہم اس چیز کو نظرانداز کرتے ہیں جو ہماری طویل اور گہری توجہ کا تقاضا کرتی ہے، تو ہم اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرنے کا موقع بھی کھو دیتے ہیں۔ یہ اجنبی اور مشکل چیزوں کے ساتھ ہماری تکلیف دہ جدوجہد کی وجہ سے ہے کہ ہم اکثر مستند خوشی کا تجربہ کرتے ہیں اور ان کے ذریعے ہم عظمت حاصل  کرتے ہیں۔  یہ "سمارٹ" گیجٹس اور مشینیں، یہ آئی فون، آئی پیڈ، ٹیبلیٹ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اب ہر جگہ موجود ہیں: کچن میں، کمرے میں، سونے کے کمرے میں اور ہمارے بستروں میں، بیت الخلا میں، ہماری کاروں میں، ہماری ریل گاڑیوں میں۔ دفاتر اور اسکول، ہمارے دلوں اور دماغوں میں۔  وہ اب ہماری سب سے نجی اوراہم ترین جگہوں پر حکومت کرتے ہیں اوران اہم نجی اوراندرونی کائناتوں کو بے بس غلاموں کی کالونیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔  ایسا لگتا ہے کہ یہ اضطراب پیدا کرنے والی آلودگی، یہ خلفشار کی سازش، اورشوروغل مچانے کے اس جدید منصوبے کا ایک ہی مقصد ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ آلودگی اور سازش ہماری ہر اس چیز سے مسلسل توجہ ہٹانے کی کوشش ہے جوصحت مند اورجامع معاشروں میں ہمیشہ سے ایک معاشرتی اور ثقافتی بھلائی سمجھی جاتی رہی ہیں، یعنی گہری سوچ اور مراقبہ، عبادت یا نماز کی ادائیگی اورخاموشی اور تنہائی میں خود کو جانچنے اورخود پرغورکرنا جیسی چیزیں۔  یہ تیزی سے بڑھتے ہوئے متصرف آلات اوروبائی بیماری کی طرح پھیلنے والی مشینیں اس طرح بنائی اور پروگرام کی جاتی ہیں کہ ان میں سینٹرفیوگل قوتیں اوررجحانات (بعید ازمرکزطاقت یا توانائی) ہوتے ہیں جو ہمیں ہمارے اندرونی نفسیاتی اور روحانی وسائل سے دور باہر کی طرف کھینچتے ہیں اورپھر وہ ہمیں بے معنویّت کی وسیع دنیا میں بکھیر دیتے ہیں۔ یہ مشینیں ہم کیا ہیں، ہم کون ہیں، اوراپنی ممکنہ فطرت کے مطابق ہم کیا اور کون بن سکتے ہیں کے درمیان بدصورت رکاوٹیں یا بندشیں بن گئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خاموشی، تنہائی اورسکون کو اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل بنا دیتے ہیں۔ قدیم زمانے کے بزرگوں نے یہ حکمت ہمارے لیے چھوڑی ہے: باہر کی آلودگی اورانتشاردراصل ہمارے اندر کی آلودگی اور خلفشار کا عکس ہیں - جیسے اندر، وہی باہر۔ آخر میں میں وہی دہراتا ہوں جو میں نے پہلے کہا تھا۔ آپ اس جگہ سے، جہاں سے آپ کا تعلق ہے، بالکل مشابہت رکھتے ہیں، درحقیقت، آپ وہی جگہ ہی توہیں، جس طرح وہ جگہ آپ سے ملتی جلتی ہے، اوروہ بالکل وہی ہے جو آپ ہیں


الله اعلم‎
---------------------------------------------

پاکستان میں نام نہاد جمہوریت: محافظوں کی حفاظت کون کرے گا؟
یعنی چوکیداروں پر کون نظر رکھے گا؟
------------------------------------------


ہر وقت ان چیزوں کے بارے میں سوچنا جو دوسرے لوگوں کے پاس ہیں اور ہمارے پاس نہیں ہیں ہمارے بہت سے نفسیاتی مسائل کی وجہ ہے۔
-----------------------------------------

ڈیکارٹ: میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں۔
امریکی شہری: میں نہیں سوچتا، اس لیے میں ہوں۔

(کچھ دہائیاں قبل جولیس ایوولا کا مشاہدہ)
------------------------------------------

خدا نے جنگ کا تصور اس لیے بنایا تاکہ امریکی جغرافیہ سیکھیں۔ (مارک ٹوین)
--------------------------------------

For more: Harf e Dervaish #4 Harf e Dervaish #8 Harf e Dervaish#1

And some more here:  Lament for Quetta  Regal Cinema, Qta.

Two Perspectives

Monday, March 28, 2022

Harf e Dervaish #8 (Urdu)

 


حرف درویش


حکمت کی باتیں مومن کی کھوئی ہوئی چیزیں ہیں۔ اسے جہاں کہیں بھی ملے ان پر دعویٰ کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔

(حدیث)

میں یقین کرتا ہوں تاکہ میں سمجھ سکوں۔

(سینٹ آگسٹین)

زندگی کا مقصد عظیم سےعظیم تر چیزوں کے مقابلے میں شکست کا مزہ چکھنا ہے۔

(ایرک ماریا رلکے)

---------------------------------------------------------

میرے کوئٹہ وال دوستو(اور اس بلاگ کے دیگر تمام معززقارئین) : کوئٹہ کے اس عاجزلغڑی کو اپنی دوربین اور خوردبین سمجھیں جو آپ کو بہت دوراور بہت چھوٹی چیزوں کو دکھانے کی عاجزانہ کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں جدیدیت کے غالب شعور، مادیت پسند تہذیب، اورگستاخانہ کلچر نے جان بوجھ کر ہم جیسے لوگوں کے لیے دیکھنا مشکل بنا دیا ہے۔ اس مسلط شدہ ذہنی اوربصری اندھے پن کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے کچھ کومیں یہاں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہاں، یہ سچ ہےکہ میں یہ سب کچھ اپنے مخصوص، غیر روایتی شاید غیرمتوقع اوربعض اوقات خبطی، علمی اور ادبی انداز میں کرتا ہوں جس سے آپ اتفاق یا اختلاف کر سکتے ہیں۔ چاہے آپ متفق ہوں یا نہ ہوں، وہ یقینی طور پر آپ کا اپنا اختیارواستحقاق ہے- اور اب، براہ کرم پڑھیں، سوچیں، لطف اٹھائیں اوران تحریروں کواپنے جیسے اچھے، فکری طور پر بالغ، جمالیاتی طور پرنفیس اورسمجھدار لوگوں کے ساتھ شئیر کریں۔

(درویش)

--------------------------------------------

اپنے دین کو ' جدید سائنسی طور پر یا سائنسی طریقوں سے' سمجھنا سورج کے وجود اور صداقت کی تصدیق کے لیے بالکل نابینا آدمی کی مدد لینے کے مترادف ہے۔

------------------------

پرانے اسپین کے لوگوں نے کہا ہے: وہ چھوٹی چھوٹی محرومیاں اور وہ چھوٹی چھوٹی مہربانیاں جو ان محرومیوں کو دور کرتے ہیں، ہم میں صبر، شکر اور توبہ کے فضائل کو ابھارتی ہیں۔

---------------------------

  بے معنی جدید صارفی طرززندگی اوراس کے ماحولیاتی اور سماجی نقصانات 

ہم ان ہمیشہ پیاسے لوگوں کی طرح ہیں جو اس چشمے کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے جس چشمے سے ہماری پیاس بجھانے والا پانی بہتا ہے۔

ہم ناشکرے، عاقبت نا اندیش اور غافل لوگ ہیں اور ان تمام چیزوں کے ماخذ اور اصل سے ناواقف ہیں جو ہماری زندگی کو برقرار رکھتے ہیں۔

اپنی جہالت پر مبنی تکبر کی وجہ سے ہم درخت کی وہی شاخ کاٹتے ہیں جن پر ہم بیٹھتے ہیں اور جن سے ہم اپنی غذا حاصل کرتے ہیں۔
ہم نے ضروریات کو خواہشات کے ساتھ الجھا دیا ہے۔
ہم نے حقیقی خوشی اور مستقل یا دیرپا باطنی اطمینان کو غیر ذمہ دارانہ مادیت پرستی سے الجھا دیا ہے۔
ہم نے اپنی شناخت کو اپنی ملکیت والی چیزوں کی تعداد یا مقدار کے ساتھ الجھا دیا ہے۔
ہم نے روحانیت کو نفسیات کے ساتھ الجھا دیا ہے، خاص طور پر ہمارے فتوی بازمذہبی رہنماؤں نے ۔
ہم نے یونیورسٹی کی ڈگری کو حقیقی تعلیم اورتربیت سمجھ لیا ہے۔
ہم نے غلطی سے مقدار کو معیار سمجھ لیا ہے۔
ہم نے "میں سمجھتا ہوں" کے ساتھ "مجھے پسند ہے" کو الجھا دیا ہے (سوشل میڈیا کے بے لگام استعمال کی بیماری) ۔ یہ دونوں ہمیشہ ایک جیسی چیزیں نہیں ہوتی ہیں، خاص طور پر اس نئے علمی اور اخلاقی طور پر آلودہ پوسٹ ماڈرن تاریک دور میں۔ اکثر، یہ ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہوتے ہیں۔

اور ہم اس سارے پاگل پنے کو، اس پر تشدد حماقت کو "تہذیب"، "ارتقاء" اور "ترقی" سمجھتے ہیں اورنشے میں دھت بیوقوفوں کی طرح ان کا جشن مناتے ہیں۔

----------------------------------------

جس طرح ایک پودا روشنی کی طرف رخ کرنے میں کوئی غلطی نہیں کرتا، اسی طرح انسان وحی کی پیروی میں اور اس کے نتیجے میں دین کی پیروی میں کوئی غلطی نہیں کرتا۔ (عیسٰی نورالدین)

----------------------------------------

جدیدیت کے شیر کی سواری 

ہم سب جدیدیت کے شیر پر سوار ہیں- اس جدید دنیا میں جو ہر لمحہ اور ہر قیمت پرروایتی اورماقبل جدیدیت یا غیرجدید دنیا (یعنی وہ دنیا جو مقدس علامتوں سے بھری ہوئی تھی ، یا جب لوگ ان تمام علامتوں کو اس طرح سمجھتے تھے جس طرح انہیں سمجھا جانا چاہئے) کی بے حرمتی پر متشدد اصرار کرتی ہے، یہ زندگی کی حقیقت اوراس زندگی کو جینے کی مشکل اور المناک حالت ہے ۔

ہم اس خوفناک اورخونخوار شیر کے ساتھ نہ تو استدلال کر سکتے ہیں، اور نہ ہی ہم اس کی پشت پر سے اپنی مرضی سے اتر سکتے ہیں۔
ہم صرف اور صرف ایک کام کر سکتے ہیں: شیر پرسواری کرتے رہنا  یا اس پرمسلسل سوار رہنا۔
جس کا مطلب ہے کہ اس خوفناک اور پاگل درندے پر سوار رہنے کا طریقہ جاننا ہمارے لیے اشد ضروری ہے۔
ورنہ ہماری سفاکانہ موت ناگزیر ہے۔

اور نہ صرف اس پر ڈٹے رہنا، بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ جاننا کہ اسے اپنی مرضی اور خواہش، جو ان اقدار اور عقائد کی عکاسی کرتا ہے جن کا ماخذ ہماری مذہبی فکری اور روحانی روایات ہیں، کے تابع کیسے کیا جائے۔
 درندے کو زیر یا ٹرین کرنے ( تربیت دینے) کا یہ طریقہ گویا اسے دوبارہ اس کی اصل فطرت کی طرف موڑنے جیسا ہوگا۔
صرف ایسا کرنے سے ہی ہم اپنا وقار، اپنی عزت، اپنی اقدار، مختصرا، اپنا مذہب یعنی اپنی انسانیت کو قائم وبرقرار رکھ سکتے ہیں۔

نوٹ: جدیدیت کے شیر پر سوار ہونا اصل میں جولیس ایوولا کا تصور ہے۔ میں نے اپنی سمجھ کے مطابق اس تصور کی تشریح کی ہے۔
----------------------------------------
زندگی

زندگی، بنیادی طور پر ہر جگہ ایک جیسی ہے۔ چاہے وہ طوغی روڈ ہو یا توکیو، پشتون آباد ہو یا پیرس، مری آباد ہو یا میلبورن، نچاری و نوا کلی ہو یا نیو یارک، لوڑی میدان ہو یا لندن۔ آخر میں، یہ وہی پرانا انسانی ڈرامہ ہے جس میں مختلف اداکار اور مناظر، ہدایت کار، ،موسیقاراور پروڈیوسر ہوتے ہیں۔ لیکن پلاٹ وہی رہتا ہے۔ مسائل کی نوعیت بدل جاتی ہے لیکن مسائل کبھی ختم نہیں ہوتے۔

سمندر وہی ہیں، برزخ وہی ہے اور ہم اسی برزخ پر پریشان، الجھن کی حالت میں اور کھوئے ہوئے کھڑے ہیں، سوچتے ہیں کہ کیا فیصلہ کریں یا کون سی منزل کا انتخاب کریں ۔

چیزوں کو دیکھنے کے اس طریقے پریا ان کی حقیقت کی اس وضاحت پر یقین کریں، کیونکہ یہ ایک ایسے شخص کا تجزیہ اور مشورہ  ہے جس نے اس دنیا کے تمام براعظموں میں زندگی گزارنے کا تجربہ حاصل کیا ہے۔

-------------------------------------------

مرتد یا سابق مومن سے: تم اس بدقسمت اورنابینا فقیر کی طرح ہو جواپنا قیمتی وقت اوراپنی عمراپنے دل کی گہرائیوں میں دفن پاک اور مقدس نامیاتی
سونے کی تلاش میں دوردرازملکوں کے ریگستانوں کی آلودہ اورغیرنامیاتی خاک چاننے میں گزاررہا ہے
--------------------

اے  سرگرداں ذرے، اپنے مرکزکی طرف لوٹ آؤ 
اور وہ ابدی آئینہ بن جاؤ جسے تم نے دیکھا ہے
تم وہ کرنیں ہوجو دوردورتک تاریکیوں میں بھٹک گئی ہیں
لوٹ آؤ، اور ایک بار پھر اپنے وجود کے سورج میں ڈوب جاؤ، فنا ہو جاؤ۔

(فرید الدین عطار، میرا ترجمہ)


For more: Harf e Dervaish #6 Harf e Dervaish #7 Harf e Dervaish #1

And on Ramzan and fasting:    On Fasting

Sunday, March 27, 2022

Harf e Dervaish #7 (Urdu)

حرف درویش


ایک پرانی غالباً افریقی کہاوت ہے : شیطان ہمیشہ آپ کے کانوں میں یہ سرگوشی کرتا ہے:"تم اپنے تمام بہن بھائیوں، دوستوں، پڑوسیوں اور ساتھی "کارکنوں میں بدترین حالت میں ہو اور باقی سب تم سے بہتر (دنیاوی) حالت میں ہیں- 

جدید دنیا میں جہاں حقیقت صرف مادے کی ہے وہیں شیطان کا یہ وسوسہ بہت سے لوگوں میں بہت سی نفسیاتی اور روحانی بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جدیدیت کا آغاز اس اعلان سے ہوا: کائنات میں کوئی بھی مقدس چیز نہیں ہے۔ سب کچھ مادی ہے، صرف خالص مادہ۔  اور یہ کہ انسان کو اپنے وجود کے لیے صرف مادے کی ضرورت ہے- شعور بذات خود مالیکیولز اور ایٹموں کی ایک مخصوص ترتیب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ روسی مصنف دوستوفسکی نے بھی جدیدیت کے اس اعلان کی صحیح نشاندہی کی تھی ۔ اور اس پر کڑی تنقید بھی کی تھی ۔  وہ یعنی دوستوفسکی جدیدیت کا یہ اعلان اپنےایک ناول میں ایک کردار کے ذریعے کرتا ہے جو کہتا ہے: "کوئی خدا نہیں ہے۔ اور جب کوئی خدا نہیں ہے تو میں خدا ہوں۔ جب کوئی خدا نہیں ہے تو ہر چیز کی اجازت ہے"۔ غالباً اس بد بخت اور پاگل جینئس نطشے نے بھی اپنی کتابوں میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا -  لیکن وہ اور دوستوفسکی ایک جیسے خیالات نہیں رکھتے تھے۔ شیطان کے اس وسوسہ کے خلاف اسلام یہ مذہبی، علمی اور روحانی تصورات اور فضائل پیش کرتا ہے: توکل، صبر، شکر، قناعت اور توبہ۔ یا دوسرے لفظوں میں تقویٰ۔ 
---------------------------------

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ملک کے سفاک ترین آمروں اور ظالموں کو کرکٹ اس قدر کیوں پسند ہے؟
----------------------------------

جب تک پاکستان میں کرکٹ ہے باقی تمام کھیلوں کا مستقبل تاریک ہے- اگر پاکستان اولمپک گیمز میں میڈل جیتنا چاہتا ہے تو ملک کے تمام بڑے مفتیان کرام کو فتویٰ دے کر کرکٹ کے کھیل کو حرام قرار دینا ہو گا۔ 
-----------------------------------------

پاکستانی سیاست: پاکستانی عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح فلم میں ہیرو، ہیروئن اور ولن کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ہے، اسی طرح سیاست میں بھی سیاستدانوں کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ہے۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ واقعی ایک بہتر اور مختلف سیاسی فلم دیکھنا چاہتے ہیں، یا واقعی سچی اور معیاری پرفارمنس چاہتے ہیں، تو انہیں اپنی ہپناٹائزشدہ آنکھوں اور سوئے ہوئے دماغ کو بدلتے ہیرو، ہیروئن اور ولن سے ہٹا کر حقیقی لوگوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جوسیاسی فلموں کو ممکن بناتے ہیں۔ یعنی ہدایت کار، پروڈیوسر، اسکرپٹ رائٹر، کیمرہ مین اور اسٹیج/سیٹ ڈیزائنرز وغیرہ۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا ہونے والا نہیں ہے کیونکہ آج کل زیادہ تر لوگ پروگرامڈ شدہ روبوٹس کی طرح ہیں جن کی زندگی کا واحد مقصد ٹک ٹاک پر اپنی ویڈیوز اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ کرنا، یوٹیوب پر کھانا پکانے کے چینلز چلانا، یا اپنے ٹی وی کے سامنے نیم بیحوشی کی حالت میں بیٹھ کر کوک اسٹوڈیواور پی ایس ایل دیکھتے رہنا ہے۔ ایک بات جو دلچسپ اورقابل غور ہے وہ یہ ہے کہ ان سیاسی فلموں کی کیٹیگری یا انواع بدل گئے ہیں، حالانکہ ان تمام فلموں کے پلاٹ وہی ہیں اوراسکرپٹ رائٹر، ڈائریکٹراور پروڈیوسر ان تمام سالوں میں وہی ہیں یا پھراسی  ہی ایک گروہ سے ہیں۔ ساٹھ سال پہلے کی (سیاسی) فلمیں ہلکے پھلکے ڈرامے ہوتے تھے جن میں حسب معمول ناچ اور گانا اوراداس مناظر ہوتے تھے۔ مرکزی فلم سنسر بورڈ کی طرف سے فلموں کو خاندان کے افراد کے ساتھ دیکھنے کے لیے بے ضرر اورٹھیک قرار دے کر پاس کیا جاتا تھا۔

پھر کامیڈی فلموں کا دور آیا۔ 
جس کے بعد بلیک کامیڈی کا دور آیا جس کے دوران ملک کے مشرقی حصے کو مغربی نصف کے کچھ انتہائی گھٹیا مسخروں اورمزاح نگاروں اور بے شرم و بے ضمیرڈائریکٹروں اور پروڈیوسروں نے بے دردی سے کاٹ کر الگ کر دیا۔  استعماری خیالات سے بھرے ذہنوں کے ساتھ اورنسلی تعصب کا شکار(وہ سب کچھ جو انہوں نے اپنے سفید فام آقاؤں اورسابقه حکمرانوں سے سیکھا تھا)، ان ظالم ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں نے ملک کے مشرقی حصے کے سیاسی اور غیرسیاسی اداکاروں اور فنکاروں کو یہ کہہ کریکسرمسترد کر دیا کہ وہ ایکشن اور ایڈونچر فلموں کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ انیس سو اکہتر کی بلاک بسٹر بلیک کامیڈی فلم (جو بالآخر ایک خوفناک ہارر مووی میں بدل گئی) کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہ جنسی تشدد، (اجتماعی اور انفرادی) عصمت دری کے مناظر اور خونریزی سے بھرپور تھی۔

یہ ایک المناک وقت میں ایک دل کو چھو لینے والی ، دل کو توڑ دینے والی اور دل دہلا دینے والی بیک وقت سیاسی اور غیر سیاسی فلم تھی۔ اس دور کے بعد ڈراؤنی فلموں کا دورباقائدگی سے شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے اور جس کے بنیادی اندازاورپلاٹ میں روایت کے مطابق بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی  ہے لیکن تشدد، خونریزی, قتل وغارت اورواضح اوربل واستہ جنسی مواد کے حوالے سے بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے۔

ایک اہم اوربڑی تبدیلی ان لوگوں میں آئی ہے جو عموماً پردے کے پیچھے ہوتے ہیں، یعنی ہدایت کار، سیٹ ڈیزائنر، پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر وغیرہ۔ ان میں سب سے بڑی تبدیلی ان کی انسانیت میں واضح انحطاط اور قومی، ثقافتی اور مذہبی وقار کے مکمل طور پر ختم ہو جانا ہے۔ یہ ساری پستی اور تنزلی ان کی نئی انتہائی پرتشدد، بے ہودہ اور فحش ہارر(ڈراونی) فلموں میں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ اس جیسی پرتشدد اور فحش فلم ان دنوں اسلام آباد کے تمام اہم سیاسی اور غیر سیاسی، یعنی نیوٹرل، سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔ 
-------------------------------------------------

آج کل کے فیشن ایبل اور مصنوعی طور پر مقبول ملحد سے : "وہ نہیں جو تم ظاہر کرتے ہو، لیکن حقیقت میں تم فکری طور پر اتنے سطحی اور علمی اعتبار سے اتنے کھوکھلے اور بے ہودہ کیوں ہو"؟ گویا انسان کا سارا شعورو وجود، اس کا ماضی، حال اور مستقبل مادیت پر مبنی ہے یا صرف مادے پر منحصر ہے۔  نادان آدمی، کیا خالصتا حیاتیاتی سطح پر شہد کی مکھی اپنے چھتے سے پہلے موجود ہو سکتی ہے؟ ہم انسان اپنی سب سے ابتدائی کہانیوں یا داستانوں سے پہلے موجود نہیں ہو سکتے۔ یہ وہ الہامی، دیوتائی قصے یا مقدس اور کثیرالجہتی کہانیاں ہیں جو ہمیں کائنات کی تکوین اورجوہمیں ہماری اصلیت بتاتی ہیں۔ 
(سلویا ونٹرس نے مارکسزم چھوڑتے ہوئے کچھ ایسے ہی الفاظ کہے)
--------------------------------------------
 

For more: Harf e Dervaish #4 Harf e Dervaish #3 Harf e Dervaish #6

And, some more: A Lament for Quetta  Hussainabad


Friday, March 25, 2022

Harf e Dervaish #6 (Urdu)

 


حرف درویش


ماضی کی روش پر قائم رہنے سے، آپ حال کے وجود کے بارے میں مہارت حاصل کر لیں گے۔

 (تاؤ ٹی چنگ)


میں تخلیق نہیں کرتا۔ میں صرف ماضی کے بارے میں بتاتا ہوں۔ (کنفیوشس)


آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ فلسفی جن کی حکمت کی آپ اس قدر تعریف کرتے ہیں، جہاں یہ سر رکھتے ہیں، ہم وہاں اپنے پاؤں رکھتے ہیں۔ (اسحاق آف اکا)۔
---------------------------------------------------------------------

پیش رفت؟ ترقی؟ کیا ترقی ، کیا سرفرازی اورکونسا  تہذیب و تمدن؟ جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا ہے یہ سب محض 'جدید ترین طریقوں سے قدیم ترین گناہوں کا ارتکاب' ہے۔

-------------------------------

یہ مختصر مضمون میں نے بلخصوص  اپنے والد محترم اور ان کے تمام بہترین دوستوں کے لیے لکھا ہے، وہ جینوین یا کھرے اور دلچسپ کویٹہ وال دوست جن میں سے کچھ اب ہمارے درمیان نہیں رہیں-  اللہ ان سب کو خوش رکھے اور جو اب ہمارے درمیان نہیں رہے، اللہ ان کوجنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔
(درویش)

------

 پرانی سادگی اورآج کا ماحولیاتی طور پر تباہ کن اور سماجی طور پرغیر ذمہ دارانہ یعنی مجرمانہ جدید صارفی طرز زندگی۔


پرانے کوئٹہ میں، میرا مطلب ہے ہمارے والدین اوران کے والدین کے کوئٹہ میں، اگر کوئی خوبی ،قدر یا فضیلت سب سے زیادہ نظر آتی تھی تو وہ سادگی تھی۔

میں قارئین کو فوری طور پر متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ برائے مہربانی سادگی کو حماقت اور جہالت سے نہ الجھائیں۔  ہم میں سے بہت سے نادان و ناسمجھ لوگ بغیر سوچے سمجھے اوراکثر کسی رد عمل میں، اور بعض اوقات جان بوجھ کر بھی، سادگی کو حماقت اور جہالت کے ساتھ الجھاتے ہیں۔  ہمیں ہمارے ناقص اور غلامانہ نظام تعلیم نے سکھایا ہے کہ ہر وہ چیز جو ہمارے اپنے بظاہر بہترین اور سب سے خوبصورت دور کی نہیں ہے اور خاص طور پر اگر اس کا تعلق ماضی سے ہے تواسے حماقت، جہالت اور حتیٰ کہ برائی کے سوا کچھ نہیں سمجھنا چاہئے۔  اور پھر ہمیں اپنے اس نام نہاد بہترین اور خوبصورت و اعلی لیکن یکساں طور پر عارضی اور گزرنے واںے دور کے لیے خود کو مبارکباد دینا سکھایا جاتا ہے کیونکہ اس دور کے رہنماؤں، بنانے والوں, دیکھ بھال اوراس کیلیے جواز فراہم کرنے اوروضاحت کرنے والوں کے مطابق یہ ایک ایسا دور ہے جو ماضی کے مقابلے میں اتنی ہی یقینی طور پر بہتر ہے جتنا کہ ایک روشن دھوپ والا دن ایک تاریک اور ڈراونے رات پر ہوتا ہے۔  ہمارے دل و دماغ میں یہ بھی ٹھونس دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ بے مثال ترقی اوربہتر  تہذیب ہے۔  ارتقائی ترقی کا یہ ڈارون کا جھوٹا فرقہ اور اس کے جھوٹے نبی ہمیں ماضی کو حماقت، پسماندگی اور یہاں تک کہ برائی کے ذخیرے کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں دیکھنا سکھا تے ہیں۔  قاری ہوشیار- یہ بلاگ سائٹ ایسے جامع جہالت کے شکار یا ذہنی طور پرغلام لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ اگر آپ ان بد بختوں میں سے  ایک ہیں، اور اگر آپ غلطی سے یہاں آ گئے ہیں تو میری آپ سے گزارش ہے  کہ مہربانی کرکے خاموشی سے چلے جائیں۔ آپ اپنی ذہنی پرورش حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر کہیں اورتشریف لے جائیں ۔ اور ان سائٹس پر اپنے ارتقائی خیالات  سے لدے ہوئے شعور کو اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ کریں اور اپنے بچے کچے ترقی پسند  اور ترقی یافتہ وجود کو شیئر اورفاروڈ کریں۔  انٹرنیٹ ایسی سائٹس سے بھرا پڑا ہے  جو ایسے لوگوں کو ذہنی غذا فراہم کرتی ہیں۔ یہ بلاگ سائٹ ان میں سے ایک نہیں  ہے یعنی یہ آپ کے لیے نہیں ہے۔  اس دکان پر ذہن کیلیے علمی اور فکری چاول چولے اور بلبلی، روح کے لیے خالص روحانی اور ماورائیی یا ماورائ  نما  اجزا  سے تیار شدہ سجی اور بریانی، اور تسکین ذوق یا جمالیاتی اطمینان کے لیے کوئٹہ  کے ثقافتی ذائقے اورمقامی رنگ و خوشبو والی کڑاک اور مزیدار چائے فروخت کی  جاتی ہے ۔  میں میکڈونلڈ برگر یا کے ایف سی چکن کی طرز کا دماغی خوراک نہیں  بیچتا، وہ کھانے جو مردہ گوشت سے بنتے ہیں اور جو جسم سے زیادہ دل و دماغ کو  زخمی کرتے ہیں یا نقصان پہنچاتے ہیں۔  اس بلاگ سائٹ کے اغراض و مقاصد کو قارئین پر واضح کرنے کے بعد، اب ہم موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔  سب سے پہلے تو میں ماضی قریب کے ان سادہ یا سادہ لوح لوگوں کو فلسفی یا حکیم  کا خطاب  دینا چاہتا ہوں۔  میں فلسفہ کے اس لفظ کو اس کی جدید شکل میں استعمال نہیں کر رہا ہوں جو دراصل اس کے قدیم، کلاسیکی معنی کے بالکل برعکس ہے۔  اس کے بجائے، میں اسے طرز زندگی کے معنی میں استعمال کر رہا ہوں۔ اس سے میرا  مطلب صرف کسی قسم کی ذہنی جمناسٹکس ,ذہنی سمرسالٹ یا قلا بازیا ں مارنا  نہیں ہے بلکہ زندگی گزارنے کا ایک ایسا جامع طریقہ ہے جو شعور اور وجود دونوں کی مکمل ہم آہنگی پر مشتمل ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ لوگ نہ صرف ایک خاص قسم کے علم کے مالک تھے بلکہ انہوں نے اس علم کو اپنے وجود میں، اپنے کہنے اور کرنے میں بھی عملی جامہ پہنایا ہوا تھا۔  جس کا مطلب ہے، علم اور تربیت۔ ہمارے برعکس، ان کے لیے دونوں  لازم و ملزوم تھے۔  مختصر یہ کہ ان کا فلسفہ ان کی سادگی میں سب سے زیادہ نمایا تھا۔  وہ سیدھی بات کرنے والے اور سمجھدار لوگ تھے- ان کی سادگی اس حقیقت کی عکاس تھی کہ انہوں نے زندگی میں ضروری چند چیزوں کو بہت سی غیر ضروری  یعنی فضول اور معمولی چیزوں کے ساتھ کبھی نہیں الجھایا۔  آج کل، لوگ اس اہم امتیاز کو کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں جس کی وجہ سے اب وہ اس سارے  کچرے میں ڈوب رہے ہیں جسے وہ بغیر سوچے سمجھے خریدتے، جمع کرتے یا ذخیرہ کرتے ہیں۔  ماضی کے ان لوگوں کے لیے وہ چیزیں جو زندگی کو برقرار  رکھنے کے لیے قطعاً ضروری نہیں تھیں، وہ صرف غیر ضروری بوجھ تھیں۔  ایک ایسا بوجھ جو آخر کار آدمی کو اخلاقی طور پر زوال پذیر بناتا ہے، اس کے تخیل کو  کند اور اس کی قوت ارادی کو کمزور بنا دیتا ہے۔  وہ ایسے لوگ تھے جو مقدار کو ترسنے کے بجائے کوالٹی یا معیار سے پوری طرح ہم آہنگ تھے۔  وہ جانتے تھے کہ واقعی امیر اور مطمئن ہونے کے لیے کسی شخص کو بہت کچھ خریدنے، جمع کرنے اور رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔  وہ اس زمانے کے لوگ تھے جب لوگ زیادہ سنتے تھے اور کم کہتے تھے لیکن جو کچھ بھی کہتے تھے اس میں ہمیشہ بہت زیادہ  معنی اور وزن ہوتا تھا۔  آج کل، مرد اورخواتین بہت کچھ کہتے ہیں، وہ آن لائن اور آف لائن دونوں طرح سے نان اسٹاپ بولتے رہتے ہیں، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس  کا مطلب بہت کم ہوتا ہے، اور اکثر اس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے۔  یہ وہ زمانہ تھا جب چیزوں کے مناسب نام بھی نہیں تھے، پھر بھی وہ مقصد سے مالا مال اور معنی  سے بھری ہوتھی تھیں۔  اب چیزوں کے واضح نام، وسیع تعریفیں، رنگین لیبل اور تفصیلی وضاحتیں ہیں، لیکن معنی اور مقصد کی کمی ہے۔  لوگ اپنے نیک کاموں کی تشہیر کیے بغیر اچھے کام کرتے تھے۔ وہ خود کو فروغ دینے اور اپنی دوکاندارانہ  مارکیٹنگ میں ملوث ہوئے بغیر نیک کام انجام دیتے تھے۔  تب لوگ بے شرمی سے صدقہ دینے جیسی نیکیاں دکھانے کے بجائے چھپ چھپ کر ان پر عمل کرتے تھے۔  ایک نیک عمل ہمیشہ اللہ کی رضا کے لیے کیا جاتا تھا اور پھر وہ نیکی احسان کرنے والا بالکل بھول جاتا تھا۔  ان میں سے بہت سے لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن ان کے پاس حکمت تھی- ان کی آنکھیں ایسی تھیں جو ان تصویروں کو دیکھ  سکتی تھیں جو رنگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔  وہ بہت سی طویل رزمیہ نظمیں یا مہاکاوی نظمیں یاد کر سکتے تھے اور بلخصوص سنا بھی سکتے تھے۔ اوروہ  حافظے سے ایسی کہانیاں سنا تے تھے جو مہینوں تک ختم نہیں ہوتی تھیں۔
ایک عجیب قسم کی عاجزی ، انکساریت اور خود انکاریت تھی ان لوگوں میں۔  وہ یہ  سب کچھ کر سکتے تھے کیونکہ زندگی کے بارے میں ان کا ایک خاص نظریہ تھا۔ وہ  زندگی کے بارے میں ایک سادہ لیکن گہری حکمت رکھتے تھے. اسے سادگی کہتے تھے۔ 

بس ایک ہی راستہ ہے دنیا کو زیر کرنے کا، جیتنے کا
یہ جتنی پرپیچ ہوتی جائے، اسی قدر سہل وسادہ ہو جا
(افتخار عارف)
----------------------------------------------------------


آپ کے بہن بھائی اور آپ کے پرانے دوست نہ صرف آپ کے بچپن کی یادوں کا  بھرپور ذخیرہ اور خزانہ ہیں بلکہ وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔  وہ ان تصویری البموں کی طرح ہیں جن کا ہر صفحہ اکثر خوشی اور کبھی کبھار غم سے بھرا ہوتا ہے لیکن وہ غم بھی ایسے ہوتے ہیں جو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہیں۔  اپنے بہن بھائیوں اوربلخصوص اپنے پرانے دوستوں کی قدروعزت کریں۔
----------------------------

جدید مغرب کی پیداوار، اسلامو فوبیا کی عجیب استخراجی استدلال یا غیر معقول,  متعصب و منحرف منطق: تمام لوگ برائی کرتے ہیں. کچھ لوگ مسلمان ہیں۔  (لہذا،) مسلمان برے ہیں۔ 
------------------------------


پوسٹ ڈیکارٹ (ڈیکارٹ کے بعد) : (کوگیٹو ایرگو سم) میں سوچ سکتا ہوں، اس لیے میں ہوں۔  پری ڈیکارٹ (ڈیکارٹ سے پہلے) : (کوگیٹو ایرگو ایسٹ)۔ میں سوچ سکتا  ہوں، اس لیے وہ (خدا) ہے- یا 'کیونکہ میں سوچ سکتا ہوں، وہ (خدا) ہے'۔
-------------------------------


فرض کریں کہ آپ ایک بے غیرت، بے ضمیر اور بے شرم انسان ہیں۔ اور فرض کریں کہ آپ کا تعلق پاکستانی حکمران طبقے سے ہے۔ معاف کیجئے گا، لیکن میں اپنے آپ کو دہرا رہا ہوں۔
(عظیم مارک ٹوین سے مستعار)
-------------------------------


پاکستان (1970 کی دہائی): دو مشہور اور مقبول ترین شخصیات افتخار عارف اور عبید اللہ بیگ تھیں۔  
آج کا پاکستان (2022): اب مشہور اور مقبول ترین شخصیات میں حریم شاہ اور علی گل پیر جیسے نام ہیں۔
--------------------------------

(فیس بک، ٹویٹر، یو ٹیوب کے غنڈے ٹرول)

سماجی انصاف یا ہر گزرتے ہوئے فیشن ایبل سماجی مسئلے کے حل کا مطالبہ کرنے والے سوشل میڈیا کے جنگجو دانشور

لائٹس جل رہی ہیں، لیکن گھر میں کوئی نہیں ہے"۔"

-------------------------
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) : ایسے لوگوں کی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کریں جو ایماندار ہوں اور جن کے دلوں میں خوف خدا ہو اور اصل میں کیا  ہوگا کہ سارے چور اور گناہ گار اس میں شامل ہو جائیں گے۔ 
-------------------------

For more: Harfe Dervaish #1 Harf e Dervaish #5 Harf e Dervaish #4

And:         A Lament for Quetta , Hussainabad, Quetta


Wednesday, March 23, 2022

Harf e Dervaish #5 (Urdu)


 حرف درویش

ہماری کہانیاں انسانی تجربات کی داستانیں ہیں۔ لہذا، وہ ہمیشہ خوبصورت چیزوں کے بارے میں نہیں بتاتے ہیں۔ انسان کے لیے بیک وقت یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ سچائی سے مخلص رہے اور صرف سننے والے کی خوشنودی کے لیے اپنی کہانیوں کو سنوارے۔ زبان اس کہانی کی بازگشت ہونی چاہیے جو ہر حال میں سنائی جائے اور اسے محض انسان کے مزاج اور ذوق کے مطابق تبدیل نہ کیا جائے۔

(اسارک، قطب شمالی کا ایک ایسکیمو)

------------------------------------------------------

میں بھی سقراط کی طرح جاہل بننا چاہتا ہوں۔
ہم سب کو سقراط کی طرح جاہل بن جانا چاہیے۔
آئیے ہم سب سقراط کی طرح جاہل بن جائیں۔
اور اگر ہم نہیں بنتے، تو یہ سب ہماری اپنی غلطی ہوگی اور کسی اور کی نہیں ۔
-----------------------------------------

دو سمندر ہیں، ایک اوپر اور ایک نیچے، اور درمیان میں ایک برزخ ہے جو ان کو جوڑتا ہے۔
اس برزخ پر ہم موجود ہیں، میں اور آپ۔
اس برزخ سے اوپر ہماری اصل منزل ہے جہاں ہم وہ بن جاتے ہیں جو ہمیں اپنے فطرت کے مطابق بننا چاہیے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں روح اپنی پاکیزگی میں رہتی ہے۔
اس برزخ کے نیچے نفس اور جسم کی تاریک دنیا ہے۔
 یہ وہ جگہ ہے جہاں شعور اور وجود اپنے ماخذ اور اصل سے سب سے زیادہ فاصلے پر ہیں۔ یہ پرچھائیوں کی دنیا ہے جہاں حقیقت اپنی سب سے کمزور, گمراہ کن یا  فریب دہ شکل میں ہے 
آپ آزاد ہیں کیونکہ آپ ابدی اور حتمی آزادی کی ارضی تصویر اور شکل ہیں۔
اب آپ فیصلہ کریں۔
بتائیں آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟
-------------------------------------------
کرنل کی بیوی والی مہلک بیماری۔

"کیا تم نہیں جانتے کہ میں کون ہوں؟"
یہ وہ سماجی اور اخلاقی  کینسر ہے جو اب پاکستانی معاشرے کی ہر تہہ کو اوپر سے نیچے تک لاحق ہے۔
یہ بیماری ان معاشروں میں پھیلتی ہے جہاں ہر چیز میں معیار کا فقدان فخر کی بات ہے اور جہاں اس بازاری اور بے ہودہ کلچر کو فرض شناسی کے ساتھ, بالقصد یا جان بوجھ کر فروغ دیا جاتا ہے, اس کے پھیلانے والوں کو ہیرو کہا جاتا ہے اور اس کی علامتوں کی  بھی دل سے عبادت کی جاتی ہے۔
ناجائز استحقاق کی یہ بیماری نہ صرف حکمران طبقوں میں سب سے زیادہ واضح طور پر نظر آتی ہے بلکہ عوام کی طرف سے بھی اسے خوش دلی سے اپنایا جا رہا ہے، حالانکہ ہر ایک کے پاس اس کے بدصورت اطلاق کے لیے سماجی جگہوں کی کشادگی یکساں نہیں ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ سماجی وبا اوپر سے نیچے تک پھیلتی ہے اور یہ ہمیں قدیم ایرانی کہاوت کی یاد دلاتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مچھلی پہلے سر سے سڑنے لگتی ہے۔ یہ ہمیں قدیم لاطینی کہاوت کی بھی یاد دلاتا ہے جس کے مطابق معاشرے کے بہترین عناصر سمجھے جانے والوں کی بدعنوانی بدترین گناہ ہے۔
جب بادشاہ ایک انڈا چراتا ہے تو رعایا سمجھتے ہیں کہ دس انڈے چرانا ان کا حق اور فرض ہے۔
تو دوستو جب اگلی بار کوئی آپ سے کہے، 'کیا تم نہیں جانتے کہ میں کون ہوں'؟
آپ وہ کر سکتے ہیں جو آپ اب تک کرتے آ رہے ہیں- یا اس شخص سے جو اپنے ناجائز استحقاق پربیوقوفوں کی طرح اصرار کر رہا ہے آپ یہ کہہ سکتے ہیں۔
ہاں میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ کون ہیں اور خاص طور پرکہ آپ کیا ہیں۔ تم وہ ہو جو میں نہیں ہوں۔ تم وہ ہو جو میں کبھی نہیں بننا چاہتا، کبھی نہیں بننا چاہتا'۔
----------------------------------

جدید دنیا میں علامت کی یا علامتی زبانوں کی المناک تباہی۔

قدیم زین بدھ راہبوں نے کہا ہے، 'انگلی چاند کی طرف اشارہ کرتی ہے، لیکن احمق 
صرف انگلی کو دیکھتا ہے'۔

    -مسلم صوفی ہجویری اس کی تصدیق اس طرح کرتے ہیں

جو مخلوق کی طرف دیکھتا ہے وہ ناکام و نامراد ہو جاتا ہے اور جو حق کی طرف 
  -لوٹتا ہے وہ غالب رہتا ہے

اس کا مطلب یہ ہے کہ احمق کو یہ نہیں معلوم کہ انگلی کس لیے ہے، یا وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہے کہ علامتیں کیا ہیں اور وہ کیسے کام کرتی ہیں۔ احمقوں کی دنیا ایک بے رنگ، بے جان اور بے معنی دنیا ہے، جس میں کوئی علامت نہیں ہے۔
اس قسم کی اوور سیمپلیفیکیشن (لایعنی تسہیل )  کو ریڈکشنزم (تخفیف پسندی ) کہا جاتا ہے۔
یہ وہ بگاڑیا تحریف ہے جو دنیا کے بہت سے نازل شدہ مذاہب میں میں بھی داخل ہو چکی ہے، یا اب داخل ہو رہی ہے۔
یہ ایک جدید تخفیف پسند رجحان ہے جو مذہب کو اس کے بنیادی لغوی معنی یا نچلی سطح تک محدود کر دیتا ہے۔
یہ نفیس، خوبصورت، پیچیدہ اور کئی تہوں والے مذہب کو کئی طریقوں سے نقصان پہنچاتا ہے۔ مثال کے طور پر، یہ معیار کو تباہ کرتا ہے، اور اسے صرف مقدار میں بدل دیتا ہے۔
یہ کلی اور اٹوٹ مذہب کو مکمل طور پر دنیاوی اور نظریاتی بنا دیتا ہے۔
اور اس کا سب سے برا اور تباہ کن عمل یہ ہے کہ یہ جمال و خیر یا حسن و خوبی کو کم کرتا ہے یا تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ دنیاوی افادیت پسند رجحان مکمل طور پرمکینیکل ہے اور یہ سچائی (حق) خیر اور جمال کو بہت تنگ نظروں سے دیکھتا اور سمجھتا ہے- ایسی آنکھوں کے ساتھ جو مایوپک ہیں۔
یہ ان لوگوں کی آنکھیں ہیں جن کی تیسری آنکھ یا دل کی آنکھ (چشم دل یا عین القلب) اب دیکھنے کے قابل نہیں ہیں یا جو اب اندھی ہو گئی ہے۔
اور جب یہ تیسری آنکھ دیکھنے سے قاصر ہو جاتی ہے تو پھر صرف وحشیانہ طاقت اور جبر رہ جاتا ہے اور رحم و ترس یا شفقت کی  کوئی گنجائش یا امید نہیں رہتی۔
یہ تخفیف پسند رجحان ہمارے اپنے جدید دور میں خطرناک اور تباہ کن حد تک زور پکڑ چکا ہے۔
درحقیقت یہ المناک جدید رجحان جو اب بہت سے روایتی مذاہب میں بھی داخل ہو چکا ہے مذاہب کے اندرونی پہلوؤں کو یا ان کے باطنی کائنات کو پوشیدہ بنانے یا دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔
  اور جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں، افغانستان سے برما، سعودی عرب سے سری لنکا، نائجیریا، اسرا ییل، ہندوستان، صومالیہ، پاکستان اور امریکہ تک  
اس نے اس میں بڑی حد تک پیش رفت بھی کی ہے۔
جب مذہب مکمل طور پر ایک دنیاوی طاقت کا آلہ کار اور اس کی اطاعت کرنے والے نظریے میں سمٹ کر رہ جائے، جب وہ صرف ایک پرت کا ہو جائے اور مکمل طور پرلفظی ولغوی ہو جا ئے,  تمام علامتوں سے خالی ہو جائے، جب اس میں اچھائی اور خوبصورتی نہ رہے، تب پھر وہی ہوتا ہے جو ہم حالیہ برسوں میں ہوتے دیکھ رہے ہیں، عراق کے موصل سے لے کر برما کے رنگون تک، پاکستان کے سیالکوٹ , کوئٹہ، مستونگ، مچ  سے لے کر ہندوستان کے ایودیا اور گجرات تک، افغانستان کے مزار شریف سے نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چچ تک وغیرہ۔
یہ تخلیق شدہ دنیا اور اس میں موجود ہر تخلیق شدہ چیزعلامتیں ہیں ، بشمول میں اور آپ۔ علامت کا مقصد ہمیں اس سے جوڑنا ہے جو ہم سے اوپر اور ہم سے برتر ہے۔ 
علامتیں، خاص طور پر مقدس مذہبی علامتیں، ہمارے دلوں اور دماغوں کو تربیت دیتی ہیں کہ وہ چیزوں کو مکمل، مربوط اور خاص طور پر ان کی اعلیٰ ترین، خالص ترین اور بہترین شکلوں میں دیکھنا سیکھیں۔ دوسرے لفظوں میں، وہ ہمیں چیزوں کو ویسا ہی دیکھنا سیکھنے کی تربیت دیتے ہیں جیسے وہ واقعی ہیں۔
علامت ہمیں وجود کے مقدس سمندر میں مضبوطی سے لنگر انداز رکھتا  ہے اور یہ ہمیں اپنی اصل کی طرف لوٹاتا ہے۔
احمقوں کی بے رنگ، بے جان اور بے معنی دنیا, یعنی علامتوں ( آیات یا نشانیاں ) سے محروم دنیا کو سمجھیں، تاکہ آپ ان میں سے ایک نہ بن جائیں۔
--------------------------------

   الحاد اخراج کی طرح ہے: جب جسم میں کافی مقدار میں جمع ہو جائے تو اسے باہر آنا پڑتا ہے۔ 
 (عبدالحکیم مراد)
----------------------------------

پاکستانی نیوز اینکرز: عظیم شہنشاہ نے آج ایک نئی ہدایت بھیجی ہے۔ آرڈر میں کہا گیا ہے کہ جب ہم اپنے ٹی وی شوز میں بے ہودہ اور کھوکھلے سیاستدانوں کو مدعو کرتے ہیں تو ہمیں ہیڈ کوارٹر سے بھیجے گئے اسکرپٹ پر عمل کرنا یقینی بنانا ہوگا۔ اسکرپٹ میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اخلاقی طور پر دیوالیہ اور فکری طور پر کھوکھلے سیاستدان بدترین قسم کی گفتگو میں مشغول ہوں اور ممکنہ حد تک فحش زبان استعمال کریں۔ صحافتی اور دانشور طوائفوں کے طور پر، ہمارا بنیادی کام ان کو بکواس کرنے اور ایک دوسرے پر گندی کیچڑ اچھالنے کے لیے فعال طور پر حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ جس طرح ہمارے آقاؤں نے ہمیں اپنے ضمیر اور خود کو بیچنے کی تربیت دی ہے، اسی طرح ان خصلتوں اور ہنر کو عوام تک پہنچانا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ آخر یہ ہمارا کام ہے کہ ہم بیوقوف اور سوئے ہوئے عوام کو بتائیں کہ کیا سوچنا ہے اور کیسے سوچنا ہے۔ صرف اس صورت میں جب ہم پہلے سے طے شدہ اور آرڈر شدہ کام کو صحیح طریقے سے اور اسکرپٹ کے مطابق ادا کریں گے، تب ہی ہماری تنخواہوں کے ساتھ ساتھ ہماری ریٹنگ بھی بڑھا دی جائے گی۔
اور ہاں، ہمیں یہ بھی سختی سے حکم دیا گیا ہے کہ ہم عوام کو یہ نہ جاننے دیں کہ یہ سب کچھ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا جا رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بے ہوش عوام کبھی بھی اپنی آنکھیں اصل اور بڑے مجرموں کی طرف نہ موڑیں، یا یہ کہ ان حقیقی مجرموں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے انہیں کسی بھی قیمت پر اپنا دماغ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔۔
یاد دہانی کے طور پر، یہ ہمارا قومی فریضہ ہے کہ عوام کو ایسی کسی بھی احمقانہ حرکت میں ملوث ہونے سے روکیں۔
اورآئیے اب ملک کے مشہورمراثیوں اور جوکروں کے مسخرہ بازیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اورجو اپنے انتہائی مضحکہ خیز اسکرپٹڈ شوز سے ہمیں مزید بے ہوش کر دیں گے۔
-------------------------------------


And some more:   Two Perspectives , On BandagiOn Solitude

Saturday, March 19, 2022

Harf e Dervaish #4 (Urdu)


 حرف درویش

اگر حق ان کی پسند اور ناپسند کے مطابق ہوتا تو یقیناً زمین و آسمان اور ان میں موجود تمام مخلوقات بگڑ جاتیں۔

 (قرآن کریم)

لوگ اس شخص کو اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہیں جو ان سے سچ کہتا ہے

 (افلاطون)

------------------------------------------------------------------

نیا کوئٹہ اور کوئٹہ وال کا نیا طرز زندگی

کوئٹہ کے نئے شاپنگ مالز بڑے بڑے قبروں کے پتھروں کی مانند ہیں جو چیخ چیخ کر ہمیں جھوٹے فخر اور بغیر کسی شرم کے اپنے پرانے محلوں کے چھوٹے چاچا ماما پروویژن اسٹورز کی موت کی مبارکباد دیتے ہیں۔ یہ چھوٹے اسٹورز انسانی  رواداری اور انسانی برادری کی سب سے مستند نشانیوں میں سے ایک تھے۔ افسوس وہ اب نہیں رہے- یا آہستہ آہستہ غائب ہو رہے ہیں۔۔ ان کی جگہ شیشے، سٹیل اور سیمنٹ یا کنکریٹ کی شیطانی عمارتوں نے لے لی ہے۔

ان کا کوئی اور مقصد ہو یا نہ ہو، سب سے پہلے یہ نئی عمارتیں لالچ اور سماجی اور ماحولیاتی طور پر غیر ذمہ دارانہ صارفیت کی عبادت گاہیں ہیں۔ وہ سامان کی دکانیں یا چھوٹے گروسری اسٹورز جو تقریباً ہمیشہ بوڑھے ہی چلاتے تھے، اور جو ہمیشہ محلے کے چاچا یا ماموں ہوتے تھے، صرف دکانیں نہیں تھیں۔ وہ محلے کے مرکز کی طرح ہوا کرتے تھے، جیسے دل جسم میں ہوتا ہے، یا ایسے کمیونٹی سینٹرز کی طرح جہاں لوگ صرف خریداری کے لیے نہیں جاتے تھے، بلکہ اپنی روزمرہ کی سیاست کی خبروں کے لیے، اپنے محلوں کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے۔ ، یا محض علاقے کی حالت کے بارے میں پڑوسیوں کے ساتھ روزانہ گپ شپ کے لیے  پروویژن سٹورز کے یہ چاچا ماموں کمیونٹی کی چوکیدار آنکھیں ہوا کرتے تھے۔

ان کے پاس ہمیشہ بہت سی اہم اور غیر اہم معلومات ہوتی تھیں۔ وہ بچوں میں خاص طور پر مقبول ہوتے تھے۔ جنہیں وہ ہمیشہ مٹھائیاں,جیسے ریوری اور مونگ پھلی وغیرہ مفت دیتے تھے۔ کمیونٹی میں تقریباً تمام لوگ، امیر ہو یا غریب، ان اسٹورز کے ساتھ کریڈٹ لائنز رکھتے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ پہلے خریدتے تھے اور بعد میں ادائیگی کرتے تھے۔ کریڈٹ پریا قرض پرخریدی گئی اشیاء کی ان فہرستوں کو 'کا تھا' کہا جاتا تھا۔ اور ان چھوٹے پروویژن اسٹورز کے بارے میں، جو اب باقی نہیں رہے، اور بھی بہت کچھ تھا۔ جس کے بارے میں کسی اور دن انشاءاللہ میرے پرانے محلے میں چھوٹے پروویژن اسٹورز کے نام ۔ یہ وہ اسٹورز تھے جو درج ذیل افراد کی ملکیت تھے 

 (منظورے، خادو، بابے پٹین، بابے نجف، بابو جمعھ، براتئ، آغا،تاتا)

---------------------------------------

مابعد جدیدیت اور اس کا فتنہ و فساد کا نظریہ جو دنیا بھر کے روایتی معاشروں کو تباہ کر رہا ہے اور جو سوشل میڈیا کے زہریلے اور بدبودار نالوں میں سب سے زیادہ نظر آتا ہے فخر کے ساتھ اعلان کرتا ہے: 'اگر میں دیوتاؤں کو نہیں جھکا سکتا تو میں جہنم کو بھڑکا دوں گا' (ورجیل)

('اشارہ - 'میرا جسم، میری مرضی)

---------------------------------

کتنا اچھا ہوتا اگر (کارل) مارکس سرمائے کے بارے میں اتنا کچھ لکھنے کے بجائے خود کچھ سرمایہ بنا لیتے۔

(جینی مارکس، کمیونزم کے جھوٹے مذہب کے جھوٹے پیرکی دکھی بیوی)

--------------------------------

کوک اسٹوڈیو پاکستان: کوک اسٹوڈیو میں 'کوک' کا کوکا کولا سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ کوکین سے ہے۔ اس کا اصل مقصد، کوکین کی طرح، ملک کے مجرمانہ ذہنیت رکھنے والےاخلاقی طور پر دیوالیہ اور فکری طور پر کرپٹ اعلیٰ طبقے کو نشہ پہنچانا ہے۔ باقی تمام اکثریتی نچلے اور نچلے متوسط طبقے کے مہذب لوگوں کو اس حقیقت کو سمجھنا چاہیے اور ہوشیار رہنا چاہیے۔

-----------------------------

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی گفتگو پرکشش اور موثر ہو تو سب سے پہلے ہمیشہ سچ بولیں کیونکہ حق کی طرح پرکشش کوئی چیز نہیں ہے۔ اس کے بعد ہمیشہ تھوڑا سا اسرار ملائیں اور کوشش کریں کہ ہر وقت اپنی گفتگو میں زیادہ سادہ اور بہت واضح نہ ہوں۔ آپ کی گفتگو میں ہمیشہ سوچ کو بلند کرنے کا ارادہ اور طاقت ہونی چاہیے اور صرف مقبول ہونے اور ان کی منظوری حاصل کرنے کے لیے آپ کو لوگوں کے بنیادی رجحانات اور ادنیٰ ترین صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔ اور ہاں، دنیاوی حکمت میں محتاط خاموشی سب سے اہم ہے۔ یہ وہ دانشمندانہ الفاظ ہیں جو ہمارے آباؤ اجداد نے ہمارے لیے چھوڑے ہیں، لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ اب تاریکی کے اس نئے دور میں انہیں بالکل بھول چکے ہیں۔

------------------------------

روایتی مذہبی ثقافت میں، انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کا ایک مقدس مرکز اور ایک اصل ہے۔ اس کے حقیقی وجود کا مرکز عمودی اور افقی محوروں کے چوراہے پر واقع ہے۔ جب وہ عمودی کھڑا ہوتا ہے تو وہ خلیفہ اللہ ہوتا ہے، اس زمین پر اللہ کا نائب۔ اور جب وہ سجدہ کرتا ہے، جیسا کہ روزانہ کی نماز میں، وہ اللہ کا بندہ ہے، یا عبد اللہ۔ جدید سیکولر ثقافت کو علامت کے اس نظام کا کوئی اندازہ نہیں ہے، وہ اسے پرتشدد طریقے سے رد کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، اور یہ بدقسمتی سے، یہاں تک کہ یقین کے ساتھ، ہمیں بتاتا ہے کہ انسان صرف افقی ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ ہمیشہ دنیاوی دیوتاوں کے سامنے سجدے کی حالت میں رہتا ہے وہ اس لیے کہ انسان عبادت کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اب آپ فیصلہ کریں کہ ہماری فطرت اور حقیقت کو سمجھنے کے ان دو طریقوں میں سے کون سا سچا اور باوقار ہے؟

-------------------------

پرانے چینی دانشمند ہمیں بتاتے ہیں کہ دولت اور مال گوبر کی مانند ہے جو صرف اس وقت مفید اور کارآمد ہوتا ہے جب اسے پھیلایا جائے۔

----------------------

تمام بتوں میں سب سے زیادہ نقصان دہ آپ کی اپنی انا کا بت ہے۔ تم ایک سایہ کے سوا کچھ نہیں ہو جسے سورج سے پیار ہے۔ سورج آتا ہے اور سایہ تیزی سے غائب ہو جاتا ہے (مولانا رومی)

-------------------------

پاکستانی ٹی وی اینکرز: شہنشاہِ اعظم نے ہمیں ایک بار پھر سختی سے ہدایت کی ہے کہ ہم ایسے بے ہودہ لوگوں کو اپنے فسادی ٹی وی شوز پر ضرور بلائیں جو اخلاقی طور پر گرے ہوئے ہیں اور جو جھوٹ بول کر اپنی روزی کماتے ہیں یا جن کی روزی اور تنخواہ کا انحصار جاہل رہنے پر ہے، چاہے یہ لاعلمی فطری ہے یا محض دکھاوے کے مقصد کے لیے۔ ہمارے پاس سخت احکامات ہیں جس کے مطابق یہ سب کچھ عوام کے اخلاقی معیار کو بلند کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے'۔

--------------------------

پاکستانی سیاستدان: ہم کھوکھلے لوگ ہیں۔ ہم بیچنے والے اور خریدار ہیں. ہم سب کچھ بیچ دیتے ہیں، ہم اپنے لوگوں، اپنے بھائی بہنوں، اپنی ماؤں کو بیچ دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنا جسم اور روح بھی، لیکن اگر ادائیگی صرف ڈالر میں کی جائے۔ ہمارا مذہب وہ ہے جو سب سے پہلے ہمیں مالی فائدہ پہنچائے۔ ہماری اقدار وہ ہیں جو ہمیں مقبول اور مشہور بنائیں، چاہے وہ مقبولیت اور شہرت ہمارے انفرادی اور قومی وقار کی قیمت پر کیوں نہ آئے۔ ہم وقت، سہولت اور ہر طرح کی دنیاوی طاقت کے بہترین، ہمہ وقت تیار اور مکمل طور پر بے شرم غلام ہیں۔ ہم آسانی سے اس کی طرف جھک جاتے ہیں جوہماری سب سے زیادہ قیمت ادا کرتا ہے۔ ہم اس قسم کا کاروبار اپنے ملک کے اندر کرتے ہیں اور ہم ملک سے باہر بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ یاد رکھیں، ہم بیچنے والے اور خریدار ہیں، آخر کار۔ مختصرا، ہم کاروباری لوگ ہیں. ہم پاکستان کے کھوکھلے لوگ ہیں اور ہمارے ملک کے ساتھ اب تک جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اس کی ہم پرکسی بھی قسم کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ پاکستان زندہ باد۔

--------------------------------

شرط صرف یہ ہے کہ آپ قریب سے , گہرائی سے اور دل سے دیکھیں۔ یہ سب کچھ وہاں موجود ہے. آپ کو صرف شفاف انسانی آنکھیں اور دل کی ضرورت ہے، ایک ایسا دل جو ابھی تک پتھر میں تبدیل نہیں ہوا ہو۔ ناانصافی، جبر، ایک طبقے کا دوسرے طبقے کے ذریعے وحشیانہ استحصال، ایک گروہ کی طرف سے دوسرے گروہ کی بلیک میلنگ، صحافیوں کی بلیک میلنگ، وکلاء اور ججوں کی بلیک میلنگ، سیاستدانوں کی بلیک میلنگ، ٹی وی اینکرز کی بلیک میلنگ، مردوں کی خواتین کی طرف سے بلیک میلنگ اور مردوں کی طرف سے خواتین کی بلیک میلنگ، طلباء کی طرف سے اساتذہ کی بلیک میلنگ اور اساتذہ کی طرف سے طلباء کی بلیک میلنگ وغیرہ۔ اور سب سے بڑا جرم یہ ہوتا ہے کہ جب ہر کسی کی بلیک میلنگ وہی لوگ کرتے ہیں جن کا کام ریاست اور معاشرے کے محافظ اور چوکیدار کی حیثیت سے یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ کوئی کسی کا اس طرح غیر انسانی اور وحشیانہ طریقے سے استحصال نہ کرے۔

جیسا کہ میں نے کہا، آپ کو اس تمام بربریت اورحیوانیت کو دیکھنے کے لیے صرف اچھی، تیز آنکھوں اور ایک غیر فاسد انسانی دل کی ضرورت ہے۔

------------------

خدا ہم پر رحم کرے، حالانکہ ہم نے یہ یقینی بنانے کی پوری کوشش کی ہے کہ ہم خدا کی لامحدود رحمت کے مستحق نہ رہیں

اس بلاگ کے تمام قارئین کو نوروز مبارک

------------------------------------

For more click: Harf e Dervaish#1Harf e Dervaish#2Harf e Dervaish#3

And here:     On Belief and Spirituality in Dark Times

Friday, March 18, 2022

Harf e Dervaish #3 (Urdu)

حرف درویش

درد آپ کو دکھاتا ہے کہ زندگی مستند ہے۔

ہم مذہب کو اپنے جیسا چھوٹا بنانا چاہتے ہیں، جس طرح ہم نے اپنے گھروں کو اپنے جیسا بدصورت بنا لیا ہے۔

(عبدالحکیم مراد)

----------------------------------------------------------

سوشل میڈیا 

 کچھ دوستوں نے اعتراض کیا ہے کہ میں سوشل میڈیا پر بہت زیادہ اور غیرضروری تنقید کرتا ہوں۔ان کا اعتراض بہت سے دوسرے لوگوں کے لیے جائز ہو سکتا ہے۔ لیکن, معذرت کے ساتھ , میں اسے قبول نہیں کرتا اوراس کی میری نظر میں ایک معقول وجہ ہے- میرا جواب یہ ہے کہ جو بھی سوشل میڈیا پر ایک بالغ , صحت مند اور مہذب طریقے سے ایکٹو رہنا چاہتا ہے اسے پہلے کچھ شرائط کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔ ہر دوسرے شعبے کی طرح، اگر ہم اسے سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں پہلے اس شعبے کی بہت سے بنیادی باتیں سیکھنی ہوں گی۔ اگر ہم ایک اچھے طبیعیات دان بننا چاہتے ہیں تو ہمیں طبیعیات کے نظم و ضبط کی بنیادی باتوں پر عبور حاصل کرنا ہوگا۔ اگر ہم فٹ بال کھیلنا چاہتے ہیں جیسا کہ اسے کھیلا جانا چاہیے تو ہمیں یہ سیکھنا ہو گا کہ کس طرح تیز دوڑنا ہے اور گیند کو کس طرح لات مارنا ہے۔ یہ اصول ہر چیز پر لاگو ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ سوشل میڈیا ایک جدید ترین اور پیچیدہ ٹیکنالوجی ہے اور اس میں تکنیکی اور غیر تکنیکی معلومات کی بہت سی پرتیں شامل ہیں- اگر آپ اسے صحیح طریقے سے استعمال کرنے کے قابل ہونا چاہتے ہیں۔ تو آپ کو پہلے افلاطون کی طرح عقلمند بننے کی ضرورت ہے۔ افلاطون نہیں تو کم از کم غزالی، ابن سینا,رازی, سہروردی, خیام یا طوسی کی طرح۔ میں مبالغہ آرائی نہیں کر رہا ہوں بلکہ ان لوگوں کی اجازت  اور منظوری سے کہہ رہا ہوں جنہوں نے اپنی زندگی ان چیزوں کو پڑھنے اور سمجھنے میں گزاری ہے۔ اور ان  کلاسیکی اور روایتی دانشورون کے علاوہ، آپ کو یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ جدید مفکرین اور دانشمند کون تھے اور انہوں نے اس تمام علم کے بارے میں کیا کہا ہے جس کے نتیجے میں سوشل میڈیا بنایا گیا ہے-مثال کے طور پر: جیک ایلول، آئیون ایلیچ، تھیوڈور روزسیک، مارشل میک لوہان، رولینڈ۔ بارتھیس، مشیل فوکو، جیک ڈیریڈا، ایڈورڈ ہرمن، نیل پوسٹ مین، شیری ٹرکل، نوم چومسکی، زیگمنٹ بومن وغیرہ۔ یہ صرف چند نام ہیں۔ 

اور میں پہلے بھی عرض چکا ہوں کہ سوشل میڈیا بنیادی طور پر نقصان دہ ہے اور صرف حادثاتی طور پر اچھا اور مفید ہے۔ میں دوبارہ دہراتا ہوں۔ یہ صرف ان لوگوں کے لیے اچھا ہے جنہوں نے اس کے استعمال کے لیے تمام ضروری علمی، فکری، اخلاقی تیاری کر لی ہے۔ بصورت دیگر کوئی بھی اس کے نقصان دہ اثرات سے نہیں بچ سکتا چاہے وہ اس طرح کے ناقص دلائل سے اپنے آپ کو کتنا ہی دھوکہ کیوں نہ دے جیسے کہ 'یہ اس پر منحصر ہے کہ آپ اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں یا آپ اسے کیسے استعمال کرتے ہیں۔' یہ احمقانہ دلیل جو بنیادی طور پر ٹولز کو مشینوں کے ساتھ الجھاتی ہے خود سوشل میڈیا کے ساتھ پیک کیا جاتا ہے اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ہی اپنے سادہ لوح صارفین کو کھلایا جاتا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے فلسفیوں نے، جن میں سے بعض کے نام اوپر آچکے ہیں، یہ دلیل اور اس جیسے دوسرے ناقص دلائل کو منہدم کر دیا ہے- آپ اوپر دیے گئے کچھ ناموں کے لکھے ہوے مواد کا مطالعہ کر کے خود تصدیق کر سکتے ہیں۔

----------------

یہ سچ ہے کہ سوشل میڈیا ہمیں معلومات کا لامحدود آسمان فراہم کرتا ہے۔ یہ ہمارے علمی اور فکری افق کو وسعت دیتا ہے یا ہمیں معلومات کے آسمان کی وسعت اور گہرائی فراہم  کرتا ہے اور یہاں تک کہ ہمیں علم کی کچھ ایسی شکلوں سے بھی آشنا کرتا ہے جو اب تک ناقابل رسائی تھے۔ لیکن یہ تب ہی ہوتا ہے جب یہ چالاکی سے ہمیں پہلے کسی اندھیرے کنویں میں ڈال دیتا ہے۔ ہر وہ چیز جو پھر ہمارے شعور میں داخل ہوتی ہے پہلے اس تاریک کنویں کے منہ سے گزر کر ہم میں داخل ہوتی ہے۔ ہم ایک تاریک کنویں کے نیچے سے آسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ 

ایک علمی یا حتیٰ کہ مابعدالطبیعاتی چال جو یہ ٹیکنالوجی ہم سے کھیلتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ جگہ ( خلا ) اور وقت کو سکیڑتی ہے۔ یہ ہمارے لیے بہت مفید اورسہل تو ہو سکتا ہے، لیکن اس کے ہر اس چیز پر گہرے اثرات ہوتے ہیں جو ہم جانتے ہیں اور نہیں جانتے۔ لیکن یہ وہ معاملہ ہے جس پر ہم کسی اور وقت بحث کریں گے۔

 چین کے پرانے روحانی مفکرین نے بہت پہلے اس شیطانی رجحان کے بارے میں انسانیت کو خبردار کیا تھا۔

-----------------

چونکہ 'آپ جو سوچتے ہیں، یا جس پر آپ اپنا ذہن بناتے ہیں، آپ بالکل وہی بن جاتے ہیں' پرانے ہندو اور بدھ مت کے اقوال کے مطابق، اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں آپ بالکل وہی بن جاتے ہیں جو ٹک ٹاک، فیس بک اور یوٹیوب 'لائکس' آپ سے اپنے بارے میں سوچنے کو کہتے ہیں۔ 'لائکس' کی تعداد کی بنیاد پراپنا جو تصویر آپ خود بناتے ہیں وہ تقریباً ہمیشہ آپ کی سب سے نچلی سطح اور کم ذات کی ہوتی ہے۔ اس کے بعد آپ اس پنجرے کے قیدی بن جاتے ہیں جس میں یہ انسان نما جانور موجود ہے اور آپ حقیقت میں اس پنجرے کو مزید 'لائکس' اور اپنے پیروکاروں کی مسلسل حوصلہ افزائی کیوجہ سے محنت اور جوش کے ساتھ پالش کرنا شروع کر دیتے ہیں، جیسا کہ فلسفی کرشنا مورتی نے ایک بارمشاہدہ کیا اور کہا تھا۔ عالم فلسفی اور صوفی سید حسین نصر نے خوب کہا ہے۔

ہم اس دنیا میں رہنے کا انتخاب کیسے کرتے ہیں، ہم کس طرح عمل کرتے ہیں اور کیسے سوچتے ہیں اور اپنے اندر موجود پوشیدہ امکانات کوکیسے حقیقت بناتے ہیں، اس کا انحصار اس جواب پر ہے جو ہم اپنے لیے اس بنیادی سوال کے لیے فراہم کرتے ہیں کہ ہم کون ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان زیادہ تر اپنی اپنی تصویر کے مطابق جیتے اور کام کرتے ہیں'۔  

اور مولانا رومی بیان کرتے ہیں۔

پیارے دوست، آپ اپنی سوچ کے سوا کچھ نہیں ہیں ۔ باقی آپ صرف ہڈیاں اور جلد ہیں۔ اگر گلاب کے پھول آپ کی سوچ ہیں تو آپ گلاب کا باغ ہیں۔ اگر کانٹے آپ کے خیالات ہیں تو آپ بھٹی کا ایندھن ہیں۔ اگر گلاب کا پانی آپ کی سوچ ہے تو دوسرے لوگ اس پرفیوم (عطر) کو اپنے اوپر چھڑکیں گے۔ اگر پیشاب یعنی غلاظت آپ کے دماغ میں ہے اور آپ کی سوچ ہے، تو آپ کو ایک نالی میں پھینک دیا جائے گا

(جلال الدین رومی)

----------------------------- 

 منظوری اور مقبولیت کے حصول کی مہلک بیماری-' ہمارے اصل دشمن وہ لوگ ہیں جو ہمیں اتنا اچھا محسوس کرتے ہیں اور جو ہماری تعریف کرتے نہیں تھکتے ( لائیک) کہ ہم دھیرے دھیرے، لیکن مسلسل اور یقینی طور پر، غرور، خود فریبی اور خود اطمینانی کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں '-         (سڈنی ہیرس)

----------------------

تنہائی اور عدم عمل ہماری نفسیاتی اور روحانی نشوونما کے لیے بہت ضروری ہے۔ جدید سیکولر کلچر ہمیں ہمیشہ عجلت اور گھبراہٹ کی حالت میں رکھتا ہے اور ہم سب کو ہر وقت دوڑنے پر مجبور کرتا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہم آرام نہ کریں اور یہ کہ ہم کبھی خاموش نہ ہوں اور نہ ہی کبھی تنہا ہوں۔ اس ثقافتی نظریے کا اظہار اسپورٹس برانڈ نائکی کے لوگو میں واضح انداز میں کیا گیا ہے:'بس کر ڈالو'۔ پرانی جاپانی ثقافت ہمیں اس کے برعکس کرنے کو کہتی ہے: 'ہمیشہ جلد بازی میں نہ رہیں، کچھ کرنے کے لیے ہر وقت ادھر ادھر نہ بھاگیں، بلکہ اپنی تنہائی میں خاموشی سے بیٹھنے کا طریقہ سیکھنے کی کوشش کریں'۔

-------------

 ایک کہانی: لوگ کہتے ہیں پاکستان نام کا ایک ملک ہے۔ اور یہ کہ اس ملک کے اندر ایک اور ملک ہے جسے پنجاب کہتے ہیں۔ پی پاکستان کے لیے اور پی پنجاب کے لیے ہے (انگریزی میں, پی فارپاکستان اور پی فار پنجاب)۔ کہانی ختم۔

----------------

ٹی وی شوز کا مقبول مسخرہ عامر لیاقت حسین کا کہنا ہے کہ اگر ہم کامل مسلمان کی مثال دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم سب کو اسے دیکھنا چاہیے۔ وہ یہ بھی دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ملا عمر اور ابو بکر بغدادی کی طرح اچھا مسلمان ہے۔

----------------

سوشل میڈیا اور این جی او انقلابی جنگجو: ایک شور مچانے والی کرائے پر لی گئی بدمعاشوں کی فوج جوبھنبھناتی مکھیوں کی طرح ہے اور جو ہمیشہ سماجی غلاظت اور گندگی کے تازہ  یعنی فیشن ایبل ڈھیر کے ارد گرد اور اوپر منڈلاتی رہتی ہے۔ یہ کی بورڈ (کمپیوٹر) کے بٹن کو بندوق کی گولیوں کی طرح استعمال کرنے والے بزدل ثقافتی جنگجو اکثر ثقافتی اور مذہبی طور پر جڑ سے اکھڑ گئے افراد ہوتے ہیں، اور جو کرائے کے فوجی ہیں جو صرف ایک قسم کے پیسے کے لیے کام کرتے ہیں: ڈالر۔ ٹرولنگ اوربیہودہ شور مچانا ان سماجی انصاف کا نعرہ لگانے والے تاجروں اور خود اشتہاری مسخروں کا واحد ہنر ہے۔

جوناتھن سوئفٹ نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا ہے۔ 'تنگ روح لوگ تنگ گردن والی بوتلوں کی طرح ہوتے ہیں: ان میں جتنا کم ہوتا ہے، اتنا ہی زیادہ شور مچاتے ہیں

-----------------

پاکستانی ٹی وی اینکرز: 'عظیم شہنشاہ نے ہمیں ایک بار پھر سختی سے ہدایت کی ہے کہ ہم اپنی اسکرینوں اور اپنے شوز میں ہمیشہ زور دیں کہ بلوچستان میں سب کچھ ٹھیک ہےاور اچھا ہے، ہر طرف امن اور ہم آہنگی ہے، ہر طرف ترقی اور خوشحالی ہے۔ ہمیں اس بات پر زور دینے کی بھی ہدایت کی گئی ہے کہ ہم جاہل اور سوئے ہوئے عوام کو بتائیں کہ صوبے میں کبھی کوئی شخص لاپتہ نہیں ہوا ہے۔ اور پیارے ناظرین، یہ تھی آج کی بلوچستان کی خبریں۔ اب آئیے ملک کے باقی حصوں میں کچھ حقیقی اور بہت سے جعلی خبروں کی طرف چلتے ہیں- جس کے بعد ہم افغان کرکٹ ٹیم پرراولپنڈی کے بدنام زمانہ کامیڈین شعیب اختر کی بیہودہ اور نسل پرستانہ کمنٹری سے لطف اندوز ہوں گے۔'۔

-------------- 

 جبکہ روایتی مذہبی ثقافتیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ انسان کو ہمیشہ اپنے دنیاوی وجود سے بالاتر ہونا چاہیے، جدید سیکولر ثقافتیں ایسے کسی بھی انسان کو جو آسمان تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے اسے وہم اور عیب میں مبتلا انسان کے سوا کچھ نہیں سمجھتا

-----------------

لالچ: دوستو، کیا آپ نے کبھی مشاہدہ کیا ہے اور کیا آپ نے اس کے بارے میں سوچا ہے کہ چینی کے ڈھیروں میں چیونٹیاں بدترین موت کیوں مر جاتی ہیں؟ (پرانی البانی کتابوں سے مستعار)

-----------------

سویڈن کے لوگ ہمیں یہ حکمت بتاتے ہیں: ایک چھوٹے سے گھر میں خدا کا اپنا کونا ہوتا ہے۔ ایک بڑے گھر میں اسے ہال میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔

----------------

For more click Harf e Dervaish#2 , Harf e Dervaish#1 , "Like"

And:       A Lament for Quetta and The System: Blackmailing

Harf e Dervaish #2 (Urdu)


 حرف درویش

سزا نہ دینے میں چھپا ظلم ہو سکتا ہے جس طرح عذاب میں پوشیدہ رحمت ہے
      (ابو بکر سراج الدین – مارٹن لنگس)
----------------------------------------------------

میں کوئٹہ کا ایک  لغڑی ہوں جو اب کوئٹہ سے بہت دور رہتا ہے لیکن کوئٹہ ہمیشہ اس کے دل اور دماغ میں رہتا ہے ۔

--------------

کوئٹہ وال کے لیے

میرے کوئٹہ وال دوستو، بھائیو اور بہنو۔ اب آپ جہاں بھی رہ رہے ہیں، سڈنی، میلبورن، ٹورنٹو، وینکوور، لندن، اسٹاک ہوم، کوپن ہیگن، اوسلو، برلن، فرینکفرٹ، ٹوکیو، اوساکا، نیویارک، جکارتہ کیلیفورنیا، ٹیکساس یا شکاگو میں، ہمیشہ اپنے اردگرد اپنا چھوٹا سا کوئٹہ بنانے کی کوشش کریں۔ قریبی میکڈونلڈز یا مسٹر برگر وغیرہ کی طرف بھاگنے کے بجائے، فیملی اور دوستوں کے ساتھ اکٹھے ہوں اور پرنس روڈ، جناح روڈ یا سورج گنج بازار کے انداز میں اپنا بن کباب اور چاول چولے بنائیں۔  اپنی صحت اور اپنی محنت کی کمائی کو سٹاربکس پر روحانی طور پر مردہ، ثقافتی طور پر بیمار احمقوں کی طرح ضائع نہ کریں۔ استحصالی سرمایہ داری نظام میں شراکت دار نہ بنیں اور اپنے لذیذ اور صحت بخش سموسے اور پکوڑے خود بنائیں، پرانے پاک فورسز سینما یا کینٹ میں واقع پرانے ہزارہ سٹور کے انداز میں اپنی لذیذ اور کڑاک چائے بنائیں۔ اگر آپ شام کا ہلکا کھانا کھانا چاہتے ہیں تو قریبی شاپنگ مال یا جدید لیکن انتہائی مہنگے کیفے کی طرف رخ کرنے کے بجاۓ اپنی چاٹ اس طرح خود بنائیں جیسے آپ عبدالستار روڈ پر کبھی کھاتے تھے، خاص طور پر سنہری چاٹ یا خادم چاٹ ہاؤس میں۔ کالی اور سبز چائے کے کپ پیتے ہوئے دوستوں کے ساتھ ہمیشہ 'بن ڈار' کریں۔

پرانے دنوں کو یاد کریں اور کوئٹہ وال جو اب کوئٹہ سے بہت دور آپ کے نئے شہر صوبے اور ملک  میں رہتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ  قریبی رابطہ رکھیں ۔

سب سے اہم بات، اپنے بچوں کو اپنی پیدائش کی جگہ کے بارے میں بتائیں۔ انہیں وہ پرانی کہانیاں سنائیں جو آپ کو آپ کے بزرگوں نے سنائی تھیں۔ انہیں بتائیں کہ یہ کیسی جگہ تھی۔ انہیں وہاں کے بوڑھے لوگوں کے بارے میں، اپنے والدین اور دادا دادی کے بارے میں، اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے بارے میں، اس خوبصورت اور مغرور لڑکی کے بارے میں جو آپ کے ساتھ اسکول جاتی تھی، اور اس بوڑھے چاچا کے بارے میں جو آپ کے محلے میں پرانی کریانے کی دکان چلاتا تھا۔ -انہیں ان سب کے بارے میں بتائیں

انہیں یہ بھی بتائیں کہ بچپن میں آپ کوئٹہ کی تیز اور جلا دینے والی گرمی اور شدید خشک سردی میں بغیر کسی نگرانی کے باہر دوستوں کے ساتھ گھنٹوں کھیلتے تھے کیونکہ یہ ایک ایسا انسانی معاشرہ تھا جہاں ہر بچہ ہر ایک کے بچے جیسا تھا اور ہر ماں باپ ہر ایک کے والدین جیسے تھے- اور یہ بھی بتائیں کہ وہ سب کس طرح کے والدین تھے۔ وہ آج کل کے والدین کی طرح نہیں تھے۔ وہ اس نسل کے لوگ تھے جن کی تعلیم اور تربیت ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیہودہ مارننگ شوز اور TikTok کلپس دیکھ کر نہیں ہوئی تھی۔

انہیں پرانے کوئٹہ کے بارے میں بتائیں۔ انہیں پرانے شہر کی منفرد ثقافت کے بارے میں آگاہ کریں۔ نوجوانوں کو بتائیں کہ کثیر ثقافتی اور رواداری کی جو خوبیاں اب وہ اپنے اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیکھتے ہیں، پرانے کوئٹہ کے لوگ ان کے بارے میں پہلے سے بخوبی آشنا تھے اور وہ ان اقدار اور فضائل کو بہت پہلے سے نہ صرف جانتے تھے بلکہ انہیں جی رہے تھے- اگرچہ وہ مشہور یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل نہیں تھے لیکن وہ ایک ایسی نسل کے لوگ تھے جن کا شعور اور وجود دونوں ہی مہذب اور نفیس تھے۔

اور یہ سب کچھ اس لیے کریں کیونکہ آپ یہ نہیں بھولے کہ آپ کی اصلیت کیا ہے کہ آپ کون ہیں اور آپ کہاں سے آئے ہیں - اپنے لیے اپنے روایتی وقار اورعزت نفس کے لیے اور اپنے تمام پیاروں کے لیے آپ کو ایک افراتفری اور انتشار زدہ جدید دنیا میں ایک مکمل باخبر، علم دوست، ثقافتی اور روحانی جنگجو کی طرح ہونا چاہیے۔ جدید دنیا ایک روح کو نقصان پہنچانے والی دنیا ہے جس کا اولین مقصد ہر مقدس چیز کی بے حرمتی کرنا ہے - جدیدیت اور خصوصتاً مابعد جدیدیت یعنی  پوسٹ موڈرنزم  کا ایک بنیادی مقصد ہم جیسے روایتی , ثقافتی اور مذہبی طور پرریشہ دار یا جڑوں والے لوگوں میں معنی خیزی اور پرانی دانشمندانہ ثقافتوں اور رسوم و رواج کو تباہ اور ختم کرنا ہے۔

اور ہاں ایک بات جو چھوٹوں اور نوجوانوں کو سمجھانا مشکل ہے وه یہ ہے کہ پرانا کوئٹہ کیوں نہیں رہا۔ اسے کیا ہوا اور کیوں ؟ اسے کس کی نظر لگ گیئ ؟ آج کے کوئٹہ کو دیکھ کر ہم میں سے ہر ایک کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ کوئٹہ شہر اب ایک بہت ہی مختلف جگہ ہے، یہاں تک کہ یہ ہم جیسے لوگوں کے لیے تقریباً ناقابل شناخت ہو چکا ہے۔ ۔ ہمیں اس لئے دکھ ہوتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک یا دو نسل قبل کوئٹہ شہر کیسا تھا۔  یہ انحطاط اور زوال ایک افسوسناک حقیقت ہے جسے آج کی نسل کے لیے سمجھنا مشکل ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں اکثر اپنے بلاگز میں پرانے کوئٹہ کے بارے میں لکھتا ہوں۔  پرانے کوئٹہ کی یاد کو زندہ اور تازہ رکھیں اور اپنا اور اپنے تمام پیاروں کا خیال رکھیں۔

----------------------------------

آدمی کی اہمیت اورعظمت اس وجہ سے نہیں ہے کہ اس کا یقین اس چیز پر ہے جو آسانی سے نظرآتا ہے اور فوری طور پر سمجھ میں آتی ہے۔ یہ اس کے غیب پرغیر متزلزل یقین کی وجہ سے ہے۔

--------------------------------

یہ دنیا ایک بہت بڑا گھر ہے جس میں آگ لگی ہوئی ہے اور ہم چھوٹے بچوں کی طرح ہیں جو یا تو اس میں گہری نیند سو رہے ہیں، یا جو آگ کی چمک سے خوش اور پرجوش ہو رہے ہیں! (بدھ مت سے مستعار)

------------------------------

پوسٹ ماڈرن جہالت کے اس نئے دور میں، اپنے آپ کو بچانے کا ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنے وقت کو نتیجہ خیز اور بامعنی انداز میں استعمال کرنا سیکھیں۔ مثال کے طور پر، اپنا ٹک ٹاک، یوٹیوب اور فیس بک کا وقت کم کریں اور اسے معیاری کتابیں پڑھنے میں صرف کریں، یا اسے فیملی ممبرز اور دوستوں کے ساتھ گزاریں۔ اسے اپنی جسمانی، نفسیاتی اور روحانی تندرستی پر خرچ کریں جس کا مطلب ہے نماز اور غوروفکر کے ذریعے اللہ کو یاد کرنا۔ جاہلیت کے اس نئے دور کا ایک ہی مقصد ہے: اگرچہ یہ آپ کو دھوکہ دیتا ہے کہ یہ آپ کو صرف تیرنا سکھا رہا ہے، لیکن اس کا اصل مقصد آپ کو الجھنوں، بے چینی اور بے معنی پن کے اندھیرے سمندر میں غرق کرنا ہے۔

----------------------------

پاکستانی حکمران اشرافیہ کے کسی بھی فرد سے ایمانداری اور عزت نفس کی توقع کرنا گدھ یا ہائینا (ہائینا) سے بہادری، وقار اور خوبصورتی کی توقع کرنے کے مترادف ہے-  یہ سب کمینہ ،کم زرف یا کم اصل اور مردہ گوشت کھانے کے عادی جانور ہیں۔

----------------------------

کارل مارکس ڈارون کے ایک ناجائز نظریاتی بچے کی طرح تھا۔ مارکسی مادیت اور ترقی کے مارکسی نظریات اور یوٹوپیانزم ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے براہ راست نتائج ہیں۔ نازی ازم اور مارکسزم دونوں ڈارون سے متاثر تھے اور دونوں ہی بیسویں صدی میں اجتماعی قتل کے واحد ایجنٹ رہے ہیں۔ مارکسسٹ مورخ ایرک ہوبسبوم کے مطابق یہ 'دہشت کی صدی' تھی۔

-----------------------------

اصرار نہ کریں کہ آپ محض ایک بہتر بندر ہیں۔ آپ خدا کے نائب ہیں۔ آپ اس زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں۔ آپ خدا کی بہترین تخلیق ہیں۔ لہذا براہ کرم اس بات پر اصرار نہ کریں کہ آپ ایک ہوشیار بندر ہیں جو لاکھوں سالوں کی کچھ اندھی قوتوں کی پیداوار ہے ، وہ قوتیں جنہوں نے کچھ پراسرار ابتدائی کیچڑ پر کچھ پراسرار طریقوں سے کام کیا اور زندگی کو جنم دیا جیسا کہ ہمیں دنیا کے آقاؤں کی طرف سے مسلسل سکھایا جاتا ہے۔ ڈارون کا نظریہ ارتقاء محض ایک نظریہ ہے، محض ایک فلسفیانہ قیاس اور ایک جدید ثقافتی نقطہ نظر ہے نہ کہ ایک درست، قابل تصدیق سائنس۔ مشہور و معروف سائنسدانوں اور مفکرین کی کئی سالوں کی جائز اور مستند سائنسی اور فلسفیانہ تنقید کی وجہ سے یہ نظریہ اب بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس زہریلے نظریے کے ذریعے ہی جدید ثقافت اور اس کا اکثر نقصان دہ نظام تعلیم سادہ، ناواقف اور پہلے سے الجھے ہوئے ذہنوں کو مزید آلودہ کرتا ہے اور ان پر اپنا غیر معقول اور جبری تسلط جمائے رکھتا ہے۔

------------------------------

:جین باؤڈرلارڈ کو سلام

کوریائی گروپ (بی ٹی ایس) بالکل حقیقی نہیں ہیں! وہ جعلی کاپی ہیں یا درحقیقت جعلی کی نقل ہیں۔ یہ اور ان جیسے بہت سے دوسرے گروپس کمپیوٹر سے تیار کردہ ہولوگرام ہیں جنہیں کمپیوٹر ماہرین نے جنوبی کوریا میں ایک ہی پلاسٹک سرجن کی بنائی ہوئی ڈرائنگ کی بنیاد پر ڈیزائن کیا ہے۔ بالکل ان کی موسیقی اور رقص کی طرح جو کمپیوٹر الگورتھم کے ذریعہ تیار کی جاتی ہے، وہ صرف حرکت پذیر تصاویر ہیں، یا اس سے بھی بدتر، تصاویر کی تصاویرہیں جو دنیا بھر کے لاکھوں نوجوانوں کو گمراہ کرتی ہیں اور انہیں بے وقوف بناتی ہیں! بی ٹی ایس کا موسیقی سے تعلق وہی ہے جو مارجرین کا بھینس سے ہے۔                             (اور ہاں، میں یہ مذاق میں نہیں کہہ رہا ہوں!)

----------------------------------

پاکستان: ایک ایسا ملک جہاں اس کے سویلین حکمران اشرافیہ پرانے پاکستانی ڈراموں جیسے میرا نام منگو اور خدا کی بستی میں پیشہ ور بھکاریوں کی طرح ہیں۔ ان پیشہ ور بھکاریوں کے مجرمانہ مالکان انہیں بیساکھیوں کا استعمال کرتے رہنے اوران بیساکھیوں کو ایک دوسرے کو منتقل کرنے پر مجبور کرتےرھتے  ہیں اور جسے وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ خاص طور پر اپنے مالکان کے لیے پیسہ کمانے کے لیے جعلی معذوری  کا ڈرامہ رچھانےکے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان جعلی بھکاریوں اور ان کے مجرم مالکان نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اس کا واحد طویل مدتی حل یہ ہے کہ بیساکھیوں کو چھین لیا جائے، بھکاریوں کی اصلاح کی جائے اور ان بھکاریوں کے مجرم مالکان کے ساتھ کسی بھی مہذب انسانی معاشرے کے قانون کے مطابق نمٹا جائے۔

--------------------------------

ملحد کارٹون کو نصیحت: خدا کے وجود پر سوال اٹھانے سے پہلے اپنے وجود کی تصدیق ضرور کر لیں۔ آپ کو پہلے وجود کی ضرورت ہے اور تبھی آپ اس کے وجود پر سوال اٹھا سکتے ہیں جو آپ کے اپنے وجود کا سبب ہے۔ اس لیے سوال یہ نہیں کہ خدا ہے یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ آپ ہیں یا نہیں۔ بصورت دیگر یہ ایک کارٹون کی طرح ہوگا جو کارٹون اینیمیٹر کے وجود پر سوال اٹھا رہا ہے جس کی تخلیق کارٹون خود ہے۔   

--------------------------------------------

ہم کھنڈرات کے درمیان رہتے ہیں، ایک ایسی دنیا کے کھنڈرات میں جس میں 'خدا مردہ ہے' جیسا کہ نطشے نے کہا تھا آج کے نظریات سکون، مصلحت، سطحی علم، اپنے آبائی ورثے اور روایات کو نظر انداز کرنا، ذوق اور ذہانت کے ادنیٰ ترین معیارات پر پورا اترنا، افادیت کی معبودیت، مادی اشیاء اور املاک کا ذخیرہ، ان تمام چیزوں کی بے عزتی جو فطری طور پر اعلیٰ اور بہتر ہے - دوسرے لفظوں میں حقیقی اقدار اور نظریات کا مکمل الٹ جانا، جہالت کی فتح کا جھنڈا اور انحطاط کا جھنڈا بلند کرنا۔ ایسے وقت میں سماجی زوال اس قدر پھیل چکا ہے کہ یہ تمام سیاسی اداروں کے فطری جزو کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ ہمارے معاشروں کی روزمرہ زندگی پر حاوی ہونے والے بحران ایک خفیہ جنگ کا حصہ ہیں جو دنیا میں روحانی اور روایتی اقدار کی حمایت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ انسان کو تاریک طاقتوں کے ایک غیر فعال آلہ میں تبدیل کرنے کے لیے۔ سرمایہ داری اور سوشلزم دونوں کی مشترکہ بنیاد زندگی اور وجود کا مادیت پسندانہ نظریہ ہے۔ (سید حسین نصر)

--------

For more, click here Harf e Dervaish #1

And:       A Lament for Quetta , The System , On Bandagi 

The World on Fire

  The World on Fire “To put the world in order, we must first put the nation in order; to put the nation in order, we must first put the fa...