Wednesday, March 23, 2022

Harf e Dervaish #5 (Urdu)


 حرف درویش

ہماری کہانیاں انسانی تجربات کی داستانیں ہیں۔ لہذا، وہ ہمیشہ خوبصورت چیزوں کے بارے میں نہیں بتاتے ہیں۔ انسان کے لیے بیک وقت یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ سچائی سے مخلص رہے اور صرف سننے والے کی خوشنودی کے لیے اپنی کہانیوں کو سنوارے۔ زبان اس کہانی کی بازگشت ہونی چاہیے جو ہر حال میں سنائی جائے اور اسے محض انسان کے مزاج اور ذوق کے مطابق تبدیل نہ کیا جائے۔

(اسارک، قطب شمالی کا ایک ایسکیمو)

------------------------------------------------------

میں بھی سقراط کی طرح جاہل بننا چاہتا ہوں۔
ہم سب کو سقراط کی طرح جاہل بن جانا چاہیے۔
آئیے ہم سب سقراط کی طرح جاہل بن جائیں۔
اور اگر ہم نہیں بنتے، تو یہ سب ہماری اپنی غلطی ہوگی اور کسی اور کی نہیں ۔
-----------------------------------------

دو سمندر ہیں، ایک اوپر اور ایک نیچے، اور درمیان میں ایک برزخ ہے جو ان کو جوڑتا ہے۔
اس برزخ پر ہم موجود ہیں، میں اور آپ۔
اس برزخ سے اوپر ہماری اصل منزل ہے جہاں ہم وہ بن جاتے ہیں جو ہمیں اپنے فطرت کے مطابق بننا چاہیے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں روح اپنی پاکیزگی میں رہتی ہے۔
اس برزخ کے نیچے نفس اور جسم کی تاریک دنیا ہے۔
 یہ وہ جگہ ہے جہاں شعور اور وجود اپنے ماخذ اور اصل سے سب سے زیادہ فاصلے پر ہیں۔ یہ پرچھائیوں کی دنیا ہے جہاں حقیقت اپنی سب سے کمزور, گمراہ کن یا  فریب دہ شکل میں ہے 
آپ آزاد ہیں کیونکہ آپ ابدی اور حتمی آزادی کی ارضی تصویر اور شکل ہیں۔
اب آپ فیصلہ کریں۔
بتائیں آپ کہاں جانا چاہتے ہیں؟
-------------------------------------------
کرنل کی بیوی والی مہلک بیماری۔

"کیا تم نہیں جانتے کہ میں کون ہوں؟"
یہ وہ سماجی اور اخلاقی  کینسر ہے جو اب پاکستانی معاشرے کی ہر تہہ کو اوپر سے نیچے تک لاحق ہے۔
یہ بیماری ان معاشروں میں پھیلتی ہے جہاں ہر چیز میں معیار کا فقدان فخر کی بات ہے اور جہاں اس بازاری اور بے ہودہ کلچر کو فرض شناسی کے ساتھ, بالقصد یا جان بوجھ کر فروغ دیا جاتا ہے, اس کے پھیلانے والوں کو ہیرو کہا جاتا ہے اور اس کی علامتوں کی  بھی دل سے عبادت کی جاتی ہے۔
ناجائز استحقاق کی یہ بیماری نہ صرف حکمران طبقوں میں سب سے زیادہ واضح طور پر نظر آتی ہے بلکہ عوام کی طرف سے بھی اسے خوش دلی سے اپنایا جا رہا ہے، حالانکہ ہر ایک کے پاس اس کے بدصورت اطلاق کے لیے سماجی جگہوں کی کشادگی یکساں نہیں ہے۔
دوسرے لفظوں میں یہ سماجی وبا اوپر سے نیچے تک پھیلتی ہے اور یہ ہمیں قدیم ایرانی کہاوت کی یاد دلاتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مچھلی پہلے سر سے سڑنے لگتی ہے۔ یہ ہمیں قدیم لاطینی کہاوت کی بھی یاد دلاتا ہے جس کے مطابق معاشرے کے بہترین عناصر سمجھے جانے والوں کی بدعنوانی بدترین گناہ ہے۔
جب بادشاہ ایک انڈا چراتا ہے تو رعایا سمجھتے ہیں کہ دس انڈے چرانا ان کا حق اور فرض ہے۔
تو دوستو جب اگلی بار کوئی آپ سے کہے، 'کیا تم نہیں جانتے کہ میں کون ہوں'؟
آپ وہ کر سکتے ہیں جو آپ اب تک کرتے آ رہے ہیں- یا اس شخص سے جو اپنے ناجائز استحقاق پربیوقوفوں کی طرح اصرار کر رہا ہے آپ یہ کہہ سکتے ہیں۔
ہاں میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ کون ہیں اور خاص طور پرکہ آپ کیا ہیں۔ تم وہ ہو جو میں نہیں ہوں۔ تم وہ ہو جو میں کبھی نہیں بننا چاہتا، کبھی نہیں بننا چاہتا'۔
----------------------------------

جدید دنیا میں علامت کی یا علامتی زبانوں کی المناک تباہی۔

قدیم زین بدھ راہبوں نے کہا ہے، 'انگلی چاند کی طرف اشارہ کرتی ہے، لیکن احمق 
صرف انگلی کو دیکھتا ہے'۔

    -مسلم صوفی ہجویری اس کی تصدیق اس طرح کرتے ہیں

جو مخلوق کی طرف دیکھتا ہے وہ ناکام و نامراد ہو جاتا ہے اور جو حق کی طرف 
  -لوٹتا ہے وہ غالب رہتا ہے

اس کا مطلب یہ ہے کہ احمق کو یہ نہیں معلوم کہ انگلی کس لیے ہے، یا وہ یہ سمجھنے میں ناکام ہے کہ علامتیں کیا ہیں اور وہ کیسے کام کرتی ہیں۔ احمقوں کی دنیا ایک بے رنگ، بے جان اور بے معنی دنیا ہے، جس میں کوئی علامت نہیں ہے۔
اس قسم کی اوور سیمپلیفیکیشن (لایعنی تسہیل )  کو ریڈکشنزم (تخفیف پسندی ) کہا جاتا ہے۔
یہ وہ بگاڑیا تحریف ہے جو دنیا کے بہت سے نازل شدہ مذاہب میں میں بھی داخل ہو چکی ہے، یا اب داخل ہو رہی ہے۔
یہ ایک جدید تخفیف پسند رجحان ہے جو مذہب کو اس کے بنیادی لغوی معنی یا نچلی سطح تک محدود کر دیتا ہے۔
یہ نفیس، خوبصورت، پیچیدہ اور کئی تہوں والے مذہب کو کئی طریقوں سے نقصان پہنچاتا ہے۔ مثال کے طور پر، یہ معیار کو تباہ کرتا ہے، اور اسے صرف مقدار میں بدل دیتا ہے۔
یہ کلی اور اٹوٹ مذہب کو مکمل طور پر دنیاوی اور نظریاتی بنا دیتا ہے۔
اور اس کا سب سے برا اور تباہ کن عمل یہ ہے کہ یہ جمال و خیر یا حسن و خوبی کو کم کرتا ہے یا تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ دنیاوی افادیت پسند رجحان مکمل طور پرمکینیکل ہے اور یہ سچائی (حق) خیر اور جمال کو بہت تنگ نظروں سے دیکھتا اور سمجھتا ہے- ایسی آنکھوں کے ساتھ جو مایوپک ہیں۔
یہ ان لوگوں کی آنکھیں ہیں جن کی تیسری آنکھ یا دل کی آنکھ (چشم دل یا عین القلب) اب دیکھنے کے قابل نہیں ہیں یا جو اب اندھی ہو گئی ہے۔
اور جب یہ تیسری آنکھ دیکھنے سے قاصر ہو جاتی ہے تو پھر صرف وحشیانہ طاقت اور جبر رہ جاتا ہے اور رحم و ترس یا شفقت کی  کوئی گنجائش یا امید نہیں رہتی۔
یہ تخفیف پسند رجحان ہمارے اپنے جدید دور میں خطرناک اور تباہ کن حد تک زور پکڑ چکا ہے۔
درحقیقت یہ المناک جدید رجحان جو اب بہت سے روایتی مذاہب میں بھی داخل ہو چکا ہے مذاہب کے اندرونی پہلوؤں کو یا ان کے باطنی کائنات کو پوشیدہ بنانے یا دبانے کی کوشش کر رہا ہے۔
  اور جیسا کہ ہم دیکھ سکتے ہیں، افغانستان سے برما، سعودی عرب سے سری لنکا، نائجیریا، اسرا ییل، ہندوستان، صومالیہ، پاکستان اور امریکہ تک  
اس نے اس میں بڑی حد تک پیش رفت بھی کی ہے۔
جب مذہب مکمل طور پر ایک دنیاوی طاقت کا آلہ کار اور اس کی اطاعت کرنے والے نظریے میں سمٹ کر رہ جائے، جب وہ صرف ایک پرت کا ہو جائے اور مکمل طور پرلفظی ولغوی ہو جا ئے,  تمام علامتوں سے خالی ہو جائے، جب اس میں اچھائی اور خوبصورتی نہ رہے، تب پھر وہی ہوتا ہے جو ہم حالیہ برسوں میں ہوتے دیکھ رہے ہیں، عراق کے موصل سے لے کر برما کے رنگون تک، پاکستان کے سیالکوٹ , کوئٹہ، مستونگ، مچ  سے لے کر ہندوستان کے ایودیا اور گجرات تک، افغانستان کے مزار شریف سے نیوزی لینڈ کے کرائسٹ چچ تک وغیرہ۔
یہ تخلیق شدہ دنیا اور اس میں موجود ہر تخلیق شدہ چیزعلامتیں ہیں ، بشمول میں اور آپ۔ علامت کا مقصد ہمیں اس سے جوڑنا ہے جو ہم سے اوپر اور ہم سے برتر ہے۔ 
علامتیں، خاص طور پر مقدس مذہبی علامتیں، ہمارے دلوں اور دماغوں کو تربیت دیتی ہیں کہ وہ چیزوں کو مکمل، مربوط اور خاص طور پر ان کی اعلیٰ ترین، خالص ترین اور بہترین شکلوں میں دیکھنا سیکھیں۔ دوسرے لفظوں میں، وہ ہمیں چیزوں کو ویسا ہی دیکھنا سیکھنے کی تربیت دیتے ہیں جیسے وہ واقعی ہیں۔
علامت ہمیں وجود کے مقدس سمندر میں مضبوطی سے لنگر انداز رکھتا  ہے اور یہ ہمیں اپنی اصل کی طرف لوٹاتا ہے۔
احمقوں کی بے رنگ، بے جان اور بے معنی دنیا, یعنی علامتوں ( آیات یا نشانیاں ) سے محروم دنیا کو سمجھیں، تاکہ آپ ان میں سے ایک نہ بن جائیں۔
--------------------------------

   الحاد اخراج کی طرح ہے: جب جسم میں کافی مقدار میں جمع ہو جائے تو اسے باہر آنا پڑتا ہے۔ 
 (عبدالحکیم مراد)
----------------------------------

پاکستانی نیوز اینکرز: عظیم شہنشاہ نے آج ایک نئی ہدایت بھیجی ہے۔ آرڈر میں کہا گیا ہے کہ جب ہم اپنے ٹی وی شوز میں بے ہودہ اور کھوکھلے سیاستدانوں کو مدعو کرتے ہیں تو ہمیں ہیڈ کوارٹر سے بھیجے گئے اسکرپٹ پر عمل کرنا یقینی بنانا ہوگا۔ اسکرپٹ میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ اخلاقی طور پر دیوالیہ اور فکری طور پر کھوکھلے سیاستدان بدترین قسم کی گفتگو میں مشغول ہوں اور ممکنہ حد تک فحش زبان استعمال کریں۔ صحافتی اور دانشور طوائفوں کے طور پر، ہمارا بنیادی کام ان کو بکواس کرنے اور ایک دوسرے پر گندی کیچڑ اچھالنے کے لیے فعال طور پر حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ جس طرح ہمارے آقاؤں نے ہمیں اپنے ضمیر اور خود کو بیچنے کی تربیت دی ہے، اسی طرح ان خصلتوں اور ہنر کو عوام تک پہنچانا ہمارا قومی فریضہ ہے۔ آخر یہ ہمارا کام ہے کہ ہم بیوقوف اور سوئے ہوئے عوام کو بتائیں کہ کیا سوچنا ہے اور کیسے سوچنا ہے۔ صرف اس صورت میں جب ہم پہلے سے طے شدہ اور آرڈر شدہ کام کو صحیح طریقے سے اور اسکرپٹ کے مطابق ادا کریں گے، تب ہی ہماری تنخواہوں کے ساتھ ساتھ ہماری ریٹنگ بھی بڑھا دی جائے گی۔
اور ہاں، ہمیں یہ بھی سختی سے حکم دیا گیا ہے کہ ہم عوام کو یہ نہ جاننے دیں کہ یہ سب کچھ اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا جا رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بے ہوش عوام کبھی بھی اپنی آنکھیں اصل اور بڑے مجرموں کی طرف نہ موڑیں، یا یہ کہ ان حقیقی مجرموں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے انہیں کسی بھی قیمت پر اپنا دماغ استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔۔
یاد دہانی کے طور پر، یہ ہمارا قومی فریضہ ہے کہ عوام کو ایسی کسی بھی احمقانہ حرکت میں ملوث ہونے سے روکیں۔
اورآئیے اب ملک کے مشہورمراثیوں اور جوکروں کے مسخرہ بازیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں اورجو اپنے انتہائی مضحکہ خیز اسکرپٹڈ شوز سے ہمیں مزید بے ہوش کر دیں گے۔
-------------------------------------


And some more:   Two Perspectives , On BandagiOn Solitude

No comments:

Post a Comment

The World on Fire

  The World on Fire “To put the world in order, we must first put the nation in order; to put the nation in order, we must first put the fa...