Friday, March 18, 2022

Harf e Dervaish #2 (Urdu)


 حرف درویش

سزا نہ دینے میں چھپا ظلم ہو سکتا ہے جس طرح عذاب میں پوشیدہ رحمت ہے
      (ابو بکر سراج الدین – مارٹن لنگس)
----------------------------------------------------

میں کوئٹہ کا ایک  لغڑی ہوں جو اب کوئٹہ سے بہت دور رہتا ہے لیکن کوئٹہ ہمیشہ اس کے دل اور دماغ میں رہتا ہے ۔

--------------

کوئٹہ وال کے لیے

میرے کوئٹہ وال دوستو، بھائیو اور بہنو۔ اب آپ جہاں بھی رہ رہے ہیں، سڈنی، میلبورن، ٹورنٹو، وینکوور، لندن، اسٹاک ہوم، کوپن ہیگن، اوسلو، برلن، فرینکفرٹ، ٹوکیو، اوساکا، نیویارک، جکارتہ کیلیفورنیا، ٹیکساس یا شکاگو میں، ہمیشہ اپنے اردگرد اپنا چھوٹا سا کوئٹہ بنانے کی کوشش کریں۔ قریبی میکڈونلڈز یا مسٹر برگر وغیرہ کی طرف بھاگنے کے بجائے، فیملی اور دوستوں کے ساتھ اکٹھے ہوں اور پرنس روڈ، جناح روڈ یا سورج گنج بازار کے انداز میں اپنا بن کباب اور چاول چولے بنائیں۔  اپنی صحت اور اپنی محنت کی کمائی کو سٹاربکس پر روحانی طور پر مردہ، ثقافتی طور پر بیمار احمقوں کی طرح ضائع نہ کریں۔ استحصالی سرمایہ داری نظام میں شراکت دار نہ بنیں اور اپنے لذیذ اور صحت بخش سموسے اور پکوڑے خود بنائیں، پرانے پاک فورسز سینما یا کینٹ میں واقع پرانے ہزارہ سٹور کے انداز میں اپنی لذیذ اور کڑاک چائے بنائیں۔ اگر آپ شام کا ہلکا کھانا کھانا چاہتے ہیں تو قریبی شاپنگ مال یا جدید لیکن انتہائی مہنگے کیفے کی طرف رخ کرنے کے بجاۓ اپنی چاٹ اس طرح خود بنائیں جیسے آپ عبدالستار روڈ پر کبھی کھاتے تھے، خاص طور پر سنہری چاٹ یا خادم چاٹ ہاؤس میں۔ کالی اور سبز چائے کے کپ پیتے ہوئے دوستوں کے ساتھ ہمیشہ 'بن ڈار' کریں۔

پرانے دنوں کو یاد کریں اور کوئٹہ وال جو اب کوئٹہ سے بہت دور آپ کے نئے شہر صوبے اور ملک  میں رہتے ہیں۔ ان سب کے ساتھ  قریبی رابطہ رکھیں ۔

سب سے اہم بات، اپنے بچوں کو اپنی پیدائش کی جگہ کے بارے میں بتائیں۔ انہیں وہ پرانی کہانیاں سنائیں جو آپ کو آپ کے بزرگوں نے سنائی تھیں۔ انہیں بتائیں کہ یہ کیسی جگہ تھی۔ انہیں وہاں کے بوڑھے لوگوں کے بارے میں، اپنے والدین اور دادا دادی کے بارے میں، اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے بارے میں، اس خوبصورت اور مغرور لڑکی کے بارے میں جو آپ کے ساتھ اسکول جاتی تھی، اور اس بوڑھے چاچا کے بارے میں جو آپ کے محلے میں پرانی کریانے کی دکان چلاتا تھا۔ -انہیں ان سب کے بارے میں بتائیں

انہیں یہ بھی بتائیں کہ بچپن میں آپ کوئٹہ کی تیز اور جلا دینے والی گرمی اور شدید خشک سردی میں بغیر کسی نگرانی کے باہر دوستوں کے ساتھ گھنٹوں کھیلتے تھے کیونکہ یہ ایک ایسا انسانی معاشرہ تھا جہاں ہر بچہ ہر ایک کے بچے جیسا تھا اور ہر ماں باپ ہر ایک کے والدین جیسے تھے- اور یہ بھی بتائیں کہ وہ سب کس طرح کے والدین تھے۔ وہ آج کل کے والدین کی طرح نہیں تھے۔ وہ اس نسل کے لوگ تھے جن کی تعلیم اور تربیت ٹی وی سکرینوں کے سامنے بیہودہ مارننگ شوز اور TikTok کلپس دیکھ کر نہیں ہوئی تھی۔

انہیں پرانے کوئٹہ کے بارے میں بتائیں۔ انہیں پرانے شہر کی منفرد ثقافت کے بارے میں آگاہ کریں۔ نوجوانوں کو بتائیں کہ کثیر ثقافتی اور رواداری کی جو خوبیاں اب وہ اپنے اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سیکھتے ہیں، پرانے کوئٹہ کے لوگ ان کے بارے میں پہلے سے بخوبی آشنا تھے اور وہ ان اقدار اور فضائل کو بہت پہلے سے نہ صرف جانتے تھے بلکہ انہیں جی رہے تھے- اگرچہ وہ مشہور یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل نہیں تھے لیکن وہ ایک ایسی نسل کے لوگ تھے جن کا شعور اور وجود دونوں ہی مہذب اور نفیس تھے۔

اور یہ سب کچھ اس لیے کریں کیونکہ آپ یہ نہیں بھولے کہ آپ کی اصلیت کیا ہے کہ آپ کون ہیں اور آپ کہاں سے آئے ہیں - اپنے لیے اپنے روایتی وقار اورعزت نفس کے لیے اور اپنے تمام پیاروں کے لیے آپ کو ایک افراتفری اور انتشار زدہ جدید دنیا میں ایک مکمل باخبر، علم دوست، ثقافتی اور روحانی جنگجو کی طرح ہونا چاہیے۔ جدید دنیا ایک روح کو نقصان پہنچانے والی دنیا ہے جس کا اولین مقصد ہر مقدس چیز کی بے حرمتی کرنا ہے - جدیدیت اور خصوصتاً مابعد جدیدیت یعنی  پوسٹ موڈرنزم  کا ایک بنیادی مقصد ہم جیسے روایتی , ثقافتی اور مذہبی طور پرریشہ دار یا جڑوں والے لوگوں میں معنی خیزی اور پرانی دانشمندانہ ثقافتوں اور رسوم و رواج کو تباہ اور ختم کرنا ہے۔

اور ہاں ایک بات جو چھوٹوں اور نوجوانوں کو سمجھانا مشکل ہے وه یہ ہے کہ پرانا کوئٹہ کیوں نہیں رہا۔ اسے کیا ہوا اور کیوں ؟ اسے کس کی نظر لگ گیئ ؟ آج کے کوئٹہ کو دیکھ کر ہم میں سے ہر ایک کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ کوئٹہ شہر اب ایک بہت ہی مختلف جگہ ہے، یہاں تک کہ یہ ہم جیسے لوگوں کے لیے تقریباً ناقابل شناخت ہو چکا ہے۔ ۔ ہمیں اس لئے دکھ ہوتا ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایک یا دو نسل قبل کوئٹہ شہر کیسا تھا۔  یہ انحطاط اور زوال ایک افسوسناک حقیقت ہے جسے آج کی نسل کے لیے سمجھنا مشکل ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں اکثر اپنے بلاگز میں پرانے کوئٹہ کے بارے میں لکھتا ہوں۔  پرانے کوئٹہ کی یاد کو زندہ اور تازہ رکھیں اور اپنا اور اپنے تمام پیاروں کا خیال رکھیں۔

----------------------------------

آدمی کی اہمیت اورعظمت اس وجہ سے نہیں ہے کہ اس کا یقین اس چیز پر ہے جو آسانی سے نظرآتا ہے اور فوری طور پر سمجھ میں آتی ہے۔ یہ اس کے غیب پرغیر متزلزل یقین کی وجہ سے ہے۔

--------------------------------

یہ دنیا ایک بہت بڑا گھر ہے جس میں آگ لگی ہوئی ہے اور ہم چھوٹے بچوں کی طرح ہیں جو یا تو اس میں گہری نیند سو رہے ہیں، یا جو آگ کی چمک سے خوش اور پرجوش ہو رہے ہیں! (بدھ مت سے مستعار)

------------------------------

پوسٹ ماڈرن جہالت کے اس نئے دور میں، اپنے آپ کو بچانے کا ایک بہتر طریقہ یہ ہے کہ اپنے وقت کو نتیجہ خیز اور بامعنی انداز میں استعمال کرنا سیکھیں۔ مثال کے طور پر، اپنا ٹک ٹاک، یوٹیوب اور فیس بک کا وقت کم کریں اور اسے معیاری کتابیں پڑھنے میں صرف کریں، یا اسے فیملی ممبرز اور دوستوں کے ساتھ گزاریں۔ اسے اپنی جسمانی، نفسیاتی اور روحانی تندرستی پر خرچ کریں جس کا مطلب ہے نماز اور غوروفکر کے ذریعے اللہ کو یاد کرنا۔ جاہلیت کے اس نئے دور کا ایک ہی مقصد ہے: اگرچہ یہ آپ کو دھوکہ دیتا ہے کہ یہ آپ کو صرف تیرنا سکھا رہا ہے، لیکن اس کا اصل مقصد آپ کو الجھنوں، بے چینی اور بے معنی پن کے اندھیرے سمندر میں غرق کرنا ہے۔

----------------------------

پاکستانی حکمران اشرافیہ کے کسی بھی فرد سے ایمانداری اور عزت نفس کی توقع کرنا گدھ یا ہائینا (ہائینا) سے بہادری، وقار اور خوبصورتی کی توقع کرنے کے مترادف ہے-  یہ سب کمینہ ،کم زرف یا کم اصل اور مردہ گوشت کھانے کے عادی جانور ہیں۔

----------------------------

کارل مارکس ڈارون کے ایک ناجائز نظریاتی بچے کی طرح تھا۔ مارکسی مادیت اور ترقی کے مارکسی نظریات اور یوٹوپیانزم ڈارون کے نظریہ ارتقاء کے براہ راست نتائج ہیں۔ نازی ازم اور مارکسزم دونوں ڈارون سے متاثر تھے اور دونوں ہی بیسویں صدی میں اجتماعی قتل کے واحد ایجنٹ رہے ہیں۔ مارکسسٹ مورخ ایرک ہوبسبوم کے مطابق یہ 'دہشت کی صدی' تھی۔

-----------------------------

اصرار نہ کریں کہ آپ محض ایک بہتر بندر ہیں۔ آپ خدا کے نائب ہیں۔ آپ اس زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں۔ آپ خدا کی بہترین تخلیق ہیں۔ لہذا براہ کرم اس بات پر اصرار نہ کریں کہ آپ ایک ہوشیار بندر ہیں جو لاکھوں سالوں کی کچھ اندھی قوتوں کی پیداوار ہے ، وہ قوتیں جنہوں نے کچھ پراسرار ابتدائی کیچڑ پر کچھ پراسرار طریقوں سے کام کیا اور زندگی کو جنم دیا جیسا کہ ہمیں دنیا کے آقاؤں کی طرف سے مسلسل سکھایا جاتا ہے۔ ڈارون کا نظریہ ارتقاء محض ایک نظریہ ہے، محض ایک فلسفیانہ قیاس اور ایک جدید ثقافتی نقطہ نظر ہے نہ کہ ایک درست، قابل تصدیق سائنس۔ مشہور و معروف سائنسدانوں اور مفکرین کی کئی سالوں کی جائز اور مستند سائنسی اور فلسفیانہ تنقید کی وجہ سے یہ نظریہ اب بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس زہریلے نظریے کے ذریعے ہی جدید ثقافت اور اس کا اکثر نقصان دہ نظام تعلیم سادہ، ناواقف اور پہلے سے الجھے ہوئے ذہنوں کو مزید آلودہ کرتا ہے اور ان پر اپنا غیر معقول اور جبری تسلط جمائے رکھتا ہے۔

------------------------------

:جین باؤڈرلارڈ کو سلام

کوریائی گروپ (بی ٹی ایس) بالکل حقیقی نہیں ہیں! وہ جعلی کاپی ہیں یا درحقیقت جعلی کی نقل ہیں۔ یہ اور ان جیسے بہت سے دوسرے گروپس کمپیوٹر سے تیار کردہ ہولوگرام ہیں جنہیں کمپیوٹر ماہرین نے جنوبی کوریا میں ایک ہی پلاسٹک سرجن کی بنائی ہوئی ڈرائنگ کی بنیاد پر ڈیزائن کیا ہے۔ بالکل ان کی موسیقی اور رقص کی طرح جو کمپیوٹر الگورتھم کے ذریعہ تیار کی جاتی ہے، وہ صرف حرکت پذیر تصاویر ہیں، یا اس سے بھی بدتر، تصاویر کی تصاویرہیں جو دنیا بھر کے لاکھوں نوجوانوں کو گمراہ کرتی ہیں اور انہیں بے وقوف بناتی ہیں! بی ٹی ایس کا موسیقی سے تعلق وہی ہے جو مارجرین کا بھینس سے ہے۔                             (اور ہاں، میں یہ مذاق میں نہیں کہہ رہا ہوں!)

----------------------------------

پاکستان: ایک ایسا ملک جہاں اس کے سویلین حکمران اشرافیہ پرانے پاکستانی ڈراموں جیسے میرا نام منگو اور خدا کی بستی میں پیشہ ور بھکاریوں کی طرح ہیں۔ ان پیشہ ور بھکاریوں کے مجرمانہ مالکان انہیں بیساکھیوں کا استعمال کرتے رہنے اوران بیساکھیوں کو ایک دوسرے کو منتقل کرنے پر مجبور کرتےرھتے  ہیں اور جسے وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ خاص طور پر اپنے مالکان کے لیے پیسہ کمانے کے لیے جعلی معذوری  کا ڈرامہ رچھانےکے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان جعلی بھکاریوں اور ان کے مجرم مالکان نے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اس کا واحد طویل مدتی حل یہ ہے کہ بیساکھیوں کو چھین لیا جائے، بھکاریوں کی اصلاح کی جائے اور ان بھکاریوں کے مجرم مالکان کے ساتھ کسی بھی مہذب انسانی معاشرے کے قانون کے مطابق نمٹا جائے۔

--------------------------------

ملحد کارٹون کو نصیحت: خدا کے وجود پر سوال اٹھانے سے پہلے اپنے وجود کی تصدیق ضرور کر لیں۔ آپ کو پہلے وجود کی ضرورت ہے اور تبھی آپ اس کے وجود پر سوال اٹھا سکتے ہیں جو آپ کے اپنے وجود کا سبب ہے۔ اس لیے سوال یہ نہیں کہ خدا ہے یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ آپ ہیں یا نہیں۔ بصورت دیگر یہ ایک کارٹون کی طرح ہوگا جو کارٹون اینیمیٹر کے وجود پر سوال اٹھا رہا ہے جس کی تخلیق کارٹون خود ہے۔   

--------------------------------------------

ہم کھنڈرات کے درمیان رہتے ہیں، ایک ایسی دنیا کے کھنڈرات میں جس میں 'خدا مردہ ہے' جیسا کہ نطشے نے کہا تھا آج کے نظریات سکون، مصلحت، سطحی علم، اپنے آبائی ورثے اور روایات کو نظر انداز کرنا، ذوق اور ذہانت کے ادنیٰ ترین معیارات پر پورا اترنا، افادیت کی معبودیت، مادی اشیاء اور املاک کا ذخیرہ، ان تمام چیزوں کی بے عزتی جو فطری طور پر اعلیٰ اور بہتر ہے - دوسرے لفظوں میں حقیقی اقدار اور نظریات کا مکمل الٹ جانا، جہالت کی فتح کا جھنڈا اور انحطاط کا جھنڈا بلند کرنا۔ ایسے وقت میں سماجی زوال اس قدر پھیل چکا ہے کہ یہ تمام سیاسی اداروں کے فطری جزو کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ ہمارے معاشروں کی روزمرہ زندگی پر حاوی ہونے والے بحران ایک خفیہ جنگ کا حصہ ہیں جو دنیا میں روحانی اور روایتی اقدار کی حمایت کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ انسان کو تاریک طاقتوں کے ایک غیر فعال آلہ میں تبدیل کرنے کے لیے۔ سرمایہ داری اور سوشلزم دونوں کی مشترکہ بنیاد زندگی اور وجود کا مادیت پسندانہ نظریہ ہے۔ (سید حسین نصر)

--------

For more, click here Harf e Dervaish #1

And:       A Lament for Quetta , The System , On Bandagi 

No comments:

Post a Comment

The World on Fire

  The World on Fire “To put the world in order, we must first put the nation in order; to put the nation in order, we must first put the fa...