Tuesday, April 5, 2022

Illuminations # 3


Light and Darkness

"People look and talk and smile and are nice and the abyss yawns. The niceness is terrifying."                     Walker Percy, Love in Ruins

" If you look too deeply, everything breaks your heart."
                                                        Ben Okri, Songs of Enchantment

----------------------------------------------------------------------------

Old Quetta: goodness and beauty were essential; evil and ugliness, accidental.

New Quetta: evil and ugliness are essential; goodness and beauty, accidental.

----------------------------

The eleventh hour or signs of the times (in Pakistan)

A soft-spoken, BMW driving mullah massages the "conscience" of the members of the criminal wealthy classes and whispers sweetly in their ears, "You have done nothing wrong."

An obscene, self promoting maskhara sells vulgarity on the screens citing and reciting from the sacred books of the Deen.

TV and movie actors imitate the already corrupted and unreal reality around them and then reality is made in the image of that imitation art and.... It is an infinite regress, a race to the bottom.

Social justice warriors scream and protest, make a lot of ugly noise, both on screen and off screen, until they receive their salvation ticket from the lords of humanity: a visa to a worldly paradise in the modern West.

Whiskey guzzling, cocaine sniffing power elites after adequately programming and training them, let the head chopping, self blowing jihadi monsters loose upon the PSL and Coke Studio watching narcotized and bamboozled awam (the public).

Perverse hustling is the new religion of the land. Everything's for sale: people, town, country, dignity, respect, principles, laws, morality and conscience...

The spectacle of spectacles: TV "senior" anal-ysts analyze nothing that really needs critical analysis and, instead, constantly engage in anus gazing.

Too many preachers and reformers but the only progress is a steady decline and constant regress in the most basic forms of human decency.

The fraud of CPEC: The Sick of the Centre tell the deceived of the periphery, "Forget the rickety trawlers and the fish. Soon you will all be eating Papa Jones Pizza. Very soon, you all will be developed to death."

Social media: everybody now has the full freedom and the right to bully and blackmail everybody else.

Mera jism, meri marzi: yes, the jism is yours but the marzi is not yours at all. It would be nice if it really were your marzi.

The naked emperor threatens everybody who dares to talk about his non-existent clothes.

------------------------------------

Religious Violence vs. Secular Violence

Force is part and parcel of nature. Any denial of this fact is itself an act of violence.
As a means to an end, ideally speaking, religious force (which is always carried out to restore mizan, or equilibrium) has one very important and distinct feature. Every act of outward force, or violence against the "other" or the world, is at the same time countered or balanced with a much bigger effort, or violence against the self. The first is the smaller battle (jihad e asghar) and the latter, the larger battle (jihad e akbar). Only in this way the outer violence is justified in authentic religious worldview. And this is also the meaning of Imam Ali's (AS) double-edged, twin-tipped sword, The Zulfiqar: one cannot fight the demons without (outside), without also fighting the bigger demons within. In other words, this is a combination of action and contemplation, one can never be without the other. Now compare this ideal with contemporary force, or violence, that is carried out in the name of religion.

-----------------------------------

Theodicy, or the problem of evil

Where there is light, there is shadow, too. That is how we should see the problem of evil vis-a-vis goodness. Man wants light and when light is made available for him, he protests and cries, "Why is there shadow?"

"If God is, whence come evil things? If He is not, whence comes good?"        

(Boethius, Consolation of Philosophy).
----------------------------------

Observe and understand the symbols in the daily prayer: when you stand upright, you are the Khalifa Allah; in prostration, you are Abd Allah. Man is both lord and vassal in the castle. Only when he is a vassal to the Lord of the lords, he can be a lord of the castle; otherwise, he is nothing but a lowly servant to all the other (pseudo) lords.

---------------------------------

Contemporary Pakistan: Orwellian contradictions all around

The mullahs corrupt and destroy religion; lawyers destroy the laws, judges dispense injustice; teachers destroy education; doctors destroy health and well being; politicians destroy politics and damage democracy (whatever that means now); journalists and TV anchors distort truth and lie through their teeth; the police create fear, protect the criminals, murder the innocent and destroy public trust; the men in uniform encourage all this corruption, this decadence and, therefore, help destroy all state institutions, save their own.

------------------------------------

Pakistan: some of us are innocent. Some are ignorant. Some are the victims. Others, the victimizers. Some, the oppressed; others, the oppressors. But we are ALL responsible. 

(to borrow from Rabbi Joshua Heschel)

------------------------------------------------------

Hope: there is a lot of it still there. In the dark ocean of inhumanity which is becoming darker and meaner by the day, like a huge eutrophic lake, these powerful rays of light still penetrate and sustain life. Find them, join them, become light and save yourself.

For more: On Belief ,   The Two Perspectives ,  Religiosity

And some more: Harf e Dervaish # 10 ,  Illuminations # 1

Sunday, April 3, 2022

Illuminations #2 (Urdu)


روشنیاں


ریت کے ذرے میں کائنات کو دیکھنا
اور جنگلی پھول میں جنت کو دیکھنا
اپنے ہاتھ کی ہتھیلی میں لامحدودیت کوتھامنا
اورایک لمحے میں ابدیت کوسمیٹنا، اسیرکرنا

(ولیم بلیک)

خوبصورتی دنیا کو بچائے گی۔       (فیوڈور دوستوفسکی)
--------------------------------------------------------------------

خدا اور ایک مکھی

ایک مکھی پھول کے اندر ہے۔
ایک پھول باغ کے اندر ہے۔
ایک باغ مٹی کی باڑ کے اندر ہے۔
گاؤں کے اندرمٹی کی ایک باڑ لگی ہوئی ہے۔
ایک گاؤں جاپان کے اندر ہے۔
جاپان دنیا کے اندر ہے۔
دنیا خدا کے اندر ہے۔

اور اس طرح، خدا ایک چھوٹی مکھی کے اندر ہے۔

( میسوزو کانیکو، ( پلکوں پر قوس قزح) جاپانی سے اردو میں ترجمہ)

------------------------------------------------------------

ایک چھوٹا پرندہ، ایک گھنٹی اور میں

اگرچہ میں اپنے بازو چوڑے کھولتی ہوں، پھر بھی میں آسمان پر نہیں اڑ سکتی۔
لیکن ایک چھوٹا سا پرندہ جو اڑ سکتا ہے، زمین پر میری طرح تیز نہیں دوڑ سکتا۔

اگرچہ میں اپنے جسم کو ہلا تی ہوں، پھر بھی میں گھنٹی کی طرح خوبصورت آواز نہیں نکال سکتی ۔
لیکن وہ گھنٹی اپنی خوبصورت بجتی ہوئی آواز کے ساتھ، میرے جتنے گیت نہیں جانتی۔

ایک گھنٹی، ایک چھوٹا پرندہ اور میں
ہم سب مختلف ہیں اور ہم سب خوبصورت ہیں۔

( میسوزو کانیکو، ( پلکوں پر قوس قزح) جاپانی سے اردو میں ترجمہ)
------------------------------------------------------------------

معمہ

میں اپنے آپ کو یہ تعجب کرنے سے نہیں روک سکتی کہ کالے بادلوں سے گرنے والی بارش کے قطرے چمکدار چاندی کی طرح کیوں ہوتے ہیں۔
میں اپنے آپ کو یہ تعجب کرنے سے نہیں روک سکتی کہ کس طرح لوکی کا پودا کسی کے چھوئے بغیر خود ہی پھول اورکھل جاتا ہے۔

میں اپنے آپ کو تعجب کرنے سے نہیں روک سکتی ۔
اور جس سے بھی میں پوچھتی ہوں، وہ صرف ہنستے ہیں۔
اور کہتے ہیں، یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

( میسوزو کانیکو، ( پلکوں پر قوس قزح) جاپانی سے اردو میں ترجمہ)
----------------------------------------------------------

فریڈی: ایک پتے کی کہانی

موسم بہار آیا
فریڈی جو ایک پتہ تھا، ایک اونچے درخت کی شاخ پر پیدا ہوا۔
فریڈی کی طرح سینکڑوں دوسرے پتے بھی اس درخت پر پیدا ہوئے۔
وہ سب ایک دوسرے کے دوست تھے۔
ایک ساتھ، وہ ہوا کے جھونکے میں رقص کرتے تھے اور روشن دھوپ والے دنوں میں نیلے آسمان کے نیچے کھیلتے تھے۔
ڈینیئل درخت کا سب سے بڑا پتہ تھا اور وہ فریڈی کا بہترین دوست تھا۔
وہ عقلمند تھا اوربہت سی چیزیں جانتا تھا۔
اس نے فریڈی کو بتایا اور سمجھایا کہ وہ پارک میں ایک بڑے درخت کا حصہ ہیں۔
اس نے فریڈی کو پرندوں، سورج اور چاند کے بارے میں بھی سمجھایا۔

فریڈی کو پتہ بننا پسند تھا۔
موسم گرما خاص طور پر اچھا تھا. اسے گرمیوں کے دن سب سے زیادہ پسند تھے۔
ان دنوں بہت سے لوگ پارک میں آتے تھے۔

ڈینیل نے کہا، 'آئیے ہم اکٹھے ہوں اور لوگوں کو کچھ سایہ فراہم کریں'۔
اس نے وضاحت کی کہ "خدا کی مخلوقات کو سایہ دینا ہمارے مقصد زندگی کا حصہ ہے۔ لوگوں کو خوش کرنا زندگی گزارنے کی ایک بہت اچھی وجہ ہے"۔

بوڑھے لوگ درخت کے نیچے بیٹھ کر پرانے وقتوں کی باتیں کرتے تھے۔
بچے درخت کے ارد گرد اور پارک میں بھاگتے اور ہنستے اور کودتے تھے۔
ان بچوں کو بھاگتے اور چھلا نگھیں لگاتے دیکھنا فریڈی کے لیے خوشی کا باعث تھا۔

اور پھر موسم گرما گزر گیا اور خزاں آ گئی۔
جلد ہی پتوں نے اپنا رنگ بدل لیا۔
کچھ سرخ ہو گئے اور کچھ پیلے ہو گئے۔
فریڈی جامنی ہو گیا۔
وہ سب بہت خوبصورت تھے۔

ایک دن ایک عجیب واقعہ ہوا۔
تیز ٹھنڈی ہوا کی وجہ سے کچھ پتے اڑ گئے۔
سارے پتے خوفزدہ ہو گئے۔

ایک چیخا "یہ کیا ہو رہا ہے"؟
عقلمند بوڑھے پتے ڈینیل نے کہا ' پتوں کے گھر بدلنے کا وقت آ گیا ہے- کچھ لوگ اسے مرنا کہتے ہیں'۔
فریڈی نے پوچھا، 'کیا ہم سب مر جائیں گے'؟
ڈینیل نے جواب دیا 'ہاں، سب مرتے ہیں، ہم میں سے ہر ایک مرجائے گا'۔
فریڈی نے خوف زدہ آواز میں پکارا "میں نہیں مروں گا۔ میں مرنا نہیں چاہتا"۔
لیکن اس کے دوست یکے بعد دیگرے گرنے لگے- جلد ہی درخت تقریباً ننگا یعنی بے پتہ ہو گیا۔۔

فریڈی نے ڈینیئل سے کہا "میں مرنے سے ڈرتا ہوں"۔
ڈینیئل نے جواب دیا "ہم سب مرنے سے ڈرتے ہیں۔ ہم سب ان چیزوں سے ڈرتے ہیں جو ہم نہیں جانتے"۔
اور اس نے مزید کہا "لیکن تم اس وقت نہیں ڈرے جب بہار موسم گرما میں بدل گئی، یا جب موسم گرما خزاں میں بدل گیا- تبدیلیاں فطرت کا حصہ ہیں"۔
فریڈی نے پوچھا "کیا ہم بہار میں واپس آئیں گے"؟
بوڑھے پتے نے کہا "میں نہیں جانتا، لیکن زندگی واپس آ جائے گی. زندگی ہمیشہ رہتی ہے اور ہم سب اس کا حصہ ہیں"۔
فریڈی نے شکایت کی "ہم صرف گرتے ہیں اور مرتے ہیں۔ ہم یہاں کیوں ہیں اور کس کے لیے"؟
عقلمند دوست نے جواب دیا 'دوستوں کے لیے، دھوپ اور چھاؤں کے لیے۔ کیا تمہیں وہ ٹھنڈی ہوا، وہ خوش لوگ اورموسم خزاں کے وہ تمام خوبصورت رنگ یاد نہیں؟
"کیا یہ سب کافی نہیں ہے"؟

اس سرد شام کے آخری پہر، ڈینیل مسکراتے ہوئے درخت سے گرا۔
فریڈی اب درخت کی اس شاخ پر واحد پتہ رہ گیا تھا۔ باقی تمام پتے گر چکے تھے۔

سردیوں کے موسم کی پہلی برف اگلی صبح پڑی۔
ایک تیز ہوا آئی اورتنہا فریڈی کو اس کی شاخ سے اٹھا کر لے گئی- اسے بالکل تکلیف نہیں ہوئی۔
گرتے ہی اس نے پہلی بار پورا درخت دیکھا۔
اور اسے ڈینیئل کے الفاظ یاد آئے "زندگی ہمیشہ کے لیے رہتی ہے"۔

فریڈی نرم اورتازہ برف پر اترا۔
وہ پرسکون تھا۔ اس نے آنکھیں بند کرلی اورسو گیا۔
اسے یہ معلوم نہیں تھا لیکن درخت اور زمین پر سرگوشیاں شروع ہو چکی تھیں۔ یہ سرگوشیاں جو کہ موسم بہار میں نئے پتوں کے نئے منصوبوں کے بارے میں تھیں میٹھے اور سریلے نغموں کی طرح تھیں۔

(دی فال آف فریڈی دی لیف از لیو بسکاگلیا۔ میرا اردو ترجمہ)
--------------------------------------------

 صبر ۔ شکر۔ توبہ



The Fall of Freddie the Leaf ( a story by Leo Buscaglia)

For more,     Illuminations #1    Harf e Dervaish#6    Harf e Dervaish #2Solitude

Illuminations #1 (Urdu)


اندھیرا اجالا


جسے کیٹرپلر( سنڈی) اپنا انجام و اختتام کہتا ہے، باقی دنیا اسے تتلی کہتی ہے۔ 
 (لاؤ تزو)

حسن سچائی کی شان ہے۔            (افلاطون)

----------------------------------------------------------------------

جو سچ (حق) ہے وہ تعریف کی رو سے یا لازمی طورپرخوبصورت بھی ہے۔  لیکن ہر وہ چیز جو ہمیں خوبصورت لگتی ہے ضروری نہیں کہ سچ بھی ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا انحصار اس بڑی جنگ یا جہاد اکبر کی معیار یا نوعیت پرہے ۔ وہ جنگ جو ہم اپنے نفس کے خلاف لڑتے ہیں یا جوہمیں لڑنا چاہئیے ۔

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جامع جہالت کے اس نئے تاریک دور میں اب یہی معیار حق پر بھی یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔ اب بہت سے لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ سورج، ستارے اور آسمان جیسی چیزوں کا اپنا وجود ہے۔ ہم اب اس دور میں نہیں رہتے جب اورجہاں حق سورج اورآسمانوں کی طرح تھا، اس طرح کہ وہ نابینا لوگوں کو بھی دکھائی دیتے تھے اوران کے لیے بھی قابل فہم تھے۔ اب ہم بہت ترقی یافتہ اورعقلمند ہو گئے ہیں، جیسا کہ میرا ایک ناخوش قاری بھی مجھے بتاتا رہتا ہے۔

------------------------------------

جدید سیکولرتعلیم: آپ انسان ہیں۔
روایتی تعلیم و تربیت: آپ کو انسان بننا ہے۔

-----------------------------------

انسان ہونا ایک طے شدہ خوشگوارحقیقت نہیں ہے۔ بلکہ ایک مسلسل سعی، ایک جدو جہد اورزندگی بھرکا مشکل ترین کام ہے۔

(سورین کیرکیگارڈ کی سوچ کی ایک تشریح )

-------------------------------------------

رابرٹ لوئس سٹیونسن نے ایک بار کہا تھا کہ شراب بوتل میں بند شاعری ہے۔ میں کہتا ہوں اچھی، کڑاک اورذائقہ دارچائےکا کپ، جیسا کہ پرانے کوئٹہ کے تمام معیاری کیفے اورریستورانوں میں فروخت کیا جاتا تھا، اس پیالے کی طرح ہے جو شاعری اور فلسفہ دونوں سے بھری ہوئی ہے۔ 
-------------------------------------------

میری تحریروں سے ناخوش قاری نے مجھے کچھ اور مشورے بھیجے ہیں۔ اپنے قیمتی مشوروں اورتجاویزکے ساتھ انھوں نے مجھ پر بعض ناپسندیدہ خصلتوں کے حامل ہونے کا الزام بھی لگایا ہے۔ مثال کے طور پر، انھوں نے مجھ پر بہت تنگ نظر، رجعت پسند اور بہت کم ذہانت کے مالک ، یعنی کند ذہن ہونے کا الزام لگایا ہے۔ (یعنی کم آئی کیو)
ایک طرح سے میں ان تمام الزامات کو تہے دل سے قبول کرتا ہوں۔  اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں ان جیسے تمام علمی، ذہنی، فکری اوراخلاقی خصلتوں کو ماپنے کے تمام جدید ناقص اورفعال طورپرنقصان دہ معیارات کو بلکل اہمیت نہیں دیتا۔ اور کسی اور دن، انشاء اللہ، میں ان کو مزید تفصیل سے بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ فی الحال میں اپنے پیارے لیکن ناخوش قاری سے یہ کہنا چاہتا ہوں۔

ایک وسیع اور کھلا ذہن رکھنا اچھی بات ہے۔۔ یہ ذہن ایک کشادہ کمرے کی طرح ہے جس میں بہت سی چوڑی کھڑکیاں ہیں۔ یہ کمرہ ہمیشہ تازہ اور ہوادار رہتا ہے۔ ہوائیں اس کمرے میں ایک سمت سے داخل ہوتی ہیں اور کمرے کی ہوا کو تازہ کرنے کے بعد کمرے سے دوسری سمت سے باہر نکلتی ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ کشادہ اورہوادارکمرہ گھرکا ایک حصہ ہے جس کی دیواریں بھی ہیں، چھت بھی ہے اورسب سے اہم حصہ، ایک مضبوط بنیاد بھی ہے جس پر پورا گھر، بشمول اس  کی دیواریں، اس کی چھت اوراس کی تمام چوڑی کھڑکیاں کھڑی ہیں۔ 
میری عاجزانہ رائے میں، ایک ذہین، ترقی پسند، وسیع اورکھلا ذہن رکھنے والے شخص کے لیے جس کے پاس بہت اعلی آئی کیؤ والی جدید ماڈل کی عقل ہے، یہ مختصر جواب کافی اور موزوں ہے۔ 
------------------------------------------------

مابعد جدیدیت کی خود متضاد اورمضحکہ خیز منطق۔

یہ فاتحانہ طور پر اعلان کیا جاتا ہے

سچائی، منطق، استدلال، عقلیت، سائنس، فلسفہ، مابعدالطبیعات، فن اور وجود کے بارے میں تمام عظیم داستانیں مر چکی ہیں۔ 
خدا مر گیا ہے (نعوذ باللہ) ۔
سوچنے والا انسان مر چکا ہے۔
تاریخ سب جھوٹ ہے اور یہ بھی دم توڑ چکی ہے۔
مصنف مرچکا ہے۔
متن کا مستند ترجمان فوت ہو گیا ہے۔
الاہئیات، عا لم الاہئیات مر چکا ہے۔
فلسفی مر گیا یا مرنے والا ہے۔
معنویت مرچکی ہے۔
اخلاقیات بھی دم توڑ چکی ہیں۔
جدیدیت دم توڑ چکی ہے۔
مغرب مر چکا ہے یا نازک حالت میں ہے۔
قومی ریاست کا تصوراورحقیقت دونوں دم توڑ چکے ہیں۔
ہر چیز کی بنیادیں منہدم ہو چکی ہیں۔

اور یہی مابعد جدیدیت کی سچی اورعظیم داستان ہے۔ یہ اب آپ کی نجات کی واحد داستان ہے۔ اس پر پورے دل و دماغ سے یقین رکھیں۔

--------------------------------------------------------------

پاکستان کے مشکل حالات اور عمران خان کی چند بڑی غلطیاں

غلطی نمبر ایک - اخلاقی ، سماجی کینسرفیکٹری کے مالکان کے لیے کام کرنا اور ( بلکل بجا طور پر) ملیریا، ڈائریا اورہیضہ جیسی خطرناک بیماریوں اوران کے بنانے یا پیدا کرنے والوں اورپھیلانے والوں پرمسلسل اورپرتشدد تنقید کرنا۔
 گزشتہ چار سالوں کے دوران، یہ ایک بہت بڑا اورواضح تضاد تھا اورجوعوام کے ساتھ ایک بڑے المناک مذاق کی طرح تھا۔ یہ پورا ایکٹ ایک انتہائی ناقص کوالٹی کامیڈی کی طرح تھا جس نے ہمیں ہنسنے سے زیادہ رلا دیا۔ قومی غیرت، قومی وقاروعزت ، قومی خود مختاری یا خود ارادیت ، نیزجن چیزوں کے بارے میں عمران خان کو بہت زیادہ تشویش ہے، ان جیسی اہم چیزوں کی موت ہیضہ، اسہال اور ملیریا کے مقابلے میں مہلک بیماریوں جیسے اخلاقی اورفکری کینسر کے ساتھ زیادہ یقینی ہوتی ہیں۔

غلطی نمبر دو - اس کا تعلق نمبر ایک سے ہے۔ پارٹی میں بہت زیادہ گدھوں (گدھ) اورہائیناوں کو شامل کرنا۔ ان مردہ گوشت کھانے والوں کے پاس پیسہ اور وسائل تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کے پاس ایک چیز کی کمی ہے جو انہیں زندگی کی باقی تمام دوسری کم سے کم شعورو وجود رکھنے والے انواع واقسام  کے مخلوقات یا پرجاتیوں سے ممتاز کرتی ہے اور وہ ایک چیزہے ضمیر۔ 
غلطی نمبر تین --- اس کا تعلق دوبارہ اوپر کے نکات سے ہے۔ ان گدھ اور چرغوں (ہائینا) میں سے کچھ کو اپنے وزیر بنا کر انہیں اطلاعات ، قا نون اورداخلہ جیسے اہم قلمدان دینا ۔ انسانی شکل میں موجود اس بے ہودہ اورفحش مخلوق نے نہ صرف عمران خان کی پارٹی کو بلکہ پورے پاکستان کے معاشرے اورثقافت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ملک اب کھلی جنگ کے میدان کی مانند ہے۔ جہاں بے تربیت اورغیرمہذب نوجوانوں کے متعصب اورجنونی ہجوم زخمی کرنے، جلانے، لٹکانے اور لوگوں کو مارنے اور بیدردی سے قتل کرنے کے لیے دندناتے پھرتے ہیں کیونکہ یہ لوگ ان باتوں پر یقین نہیں رکھتے جن پر وہ یقین رکھتے ہیں۔ اور کیونکہ یہ لوگ ان کے اپنے عظیم اورسچے لیڈر، چاہے وہ جو کوئ بھی ہو، کو پسند نہیں کرتے۔ یہ اونچے منصبوں پر بیٹھی مکروہ مخلوق جو اپنے اعلی حکومتی اورریاستی  عہدوں کوغیرذمہ دارآ نہ ، غیراخلاقی اورمجرمانہ طور پراستعمال کرتی ہے، اس  بدصورت اورپرتشدد کلچرکے راج کا سب سے زیادہ ذمہ دار ہے ۔ انہوں نے آسانی سے بیوقوف بننے والے مظلوموں کی پریشانیوں، الجھنوں اوران   کے پیچیدہ، الجھے ہوئے یا غیرمتعینہ غیض وغضب کوچالا کی سے چھین لیا ہے اوراس بھری ہوئی شیطانی بندوق کے بیرل کو، جو یہ سب متعصب،  بے رحم اوراستحصال زدہ نوجوان ہیں، اپنے ہی دشمنوں کی طرف موڑ دیا ہے جوان جیسے ہی غیرذمہ دار، غیراخلاقی، بے ہودہ اور مجرم ہیں۔

غلطی نمبر چار--ان وجوہات کی بناء پراوراپنی دیگرچھوٹی بڑی غلطیوں اورنا اہلیوں کی وجہ سے، اس نے اب ان تمام دائمی کرپٹ سیاسی ڈاکوؤں، مداریوں، ملاؤں اورخاندانوں کو دوبارہ زندہ کردیا ہے جنہیں دراصل اب تک سیاسی قبرستانوں میں زمین کے اندر اپنی قبروں میں ہمیشہ کے لیے دفن ہوجانا چاہیے تھا۔ 
غلطی نمبر پانچ - طاقتور میڈیا مافیاز، جن کے بڑے تکنیکی اثاثے یا مہارت بلیک میلنگ اور پرسیپشن مینجمنٹ ہیں (عوامی رائے یا رآئے عامہ کو کسی خاص نظریہ کے طابع کرنا یا کسی طے شدہ سمت کی طرف موڑ دینا) ، سے نمٹنے کا نادان ، ناقص اوریہاں تک کہ احمقانہ طریقہ- اپنے آپ کو ہمیشہ بہت زیادہ خوشامد یوں اورچاپلوسی کرنے والوں کے درمیان رکھنے کا منطقی نتیجہ ہمیشہ بہت سارے سفاک  دشمنوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔

غلطی نمبر چھ -- وی آئی پی کلچر پرکڑی تنقید کرنا اورخود ایک گھٹیا اورشوبازوی وی آئی پی بننا۔ جب ملک کا ‘انصا ف ، انصا ف‘ چیختا وزیراعظم جرنیل کی بیوی والی گھٹیا حرکتیں کرے گا توعام عوام بھی کرنل کی بیوی والی وبائ بیماری کو دل وجان سے قبول کر کے اس پرعمل کرے گی۔  بد قسمتی سے یہ کوتا ہی یا غلطی بھی اسی رلا دینے والے مسخرہ بازی کا جزوی حصہ ہے جس کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ 

غلطی نمبر سات -- بلوچستان کے ساتھ وہی غیر منصفانہ، غیرمساوی اور یہاں تک کہ استعماری اورسامراجی رویہ برقراررکھنا جو اس سے پہلے سب کا تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ اس کا انصاف کا دعویٰ ایک امتیازی اورمتعصب انصاف کا دعویٰ ہے، صرف کچھ کے لیے اورسب کے لیے نہیں۔ بالکل پہلے کی طرح۔ 

قارئین: آپ اسے، یعنی نمبرسات کو، اس کی غلطی کے بجائے میرا اپنا چھوٹا سا تعصب سمجھ سکتے ہیں سب سے بڑی غلطی -- بے جا تکبراورانتقام کا جنون۔

ان کے علاوہ، مجھے یقین ہے کہ اس سے اور بھی بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں۔ لیکن وہ غلطیاں بہت سے لوگوں کو معلوم ہیں۔ میں نے صرف اپنے چند نکات کی صورت میں صورتحال کے بارے میں اپنی رائے پیش کی ہے۔ 
--------------------------------------------------------

ٹک ٹاک ویڈیوز: یہ سب وہم اورفریب پرمبنی لالی پاپ یا لڈو ہیں جو دجال کا گدھا آگے بڑھتے ہی اپنی پچھلی ٹانگوں کے درمیان گراتا رہتا ہے۔ 
---------------------------------

صبر۔ شکر۔ توبہ


For more: Harf e Dervaish #9  Harf e Dervaish #7  Lament for Qta.

Friday, April 1, 2022

Harf e Dervaish #10 (Urdu)


حرف درویش

دوسرے لوگوں کے مطابق حق (الحق) کو جاننے کی کوشش نہ کرو۔
بلکہ پہلے حق کو جانو-- تب ہی تم اہل حق کو پہچانو گے۔

امام علی علیہ السلام

----------------------------------------------------------

اس پوسٹ میں، ہم یاد رکھنے، یا یادداشت اور بھولنے کے اعمال پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کریں گے۔

ہم کون ہیں اور کیا ہیں اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہمیں کیا یاد ہے اور ہم کیا بھول گئے ہیں۔  یادداشت کا ہماری شناخت کی تشکیل میں اہم کردار ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ جو ہمیں یاد نہیں ہے وہ بھی ہمارے شناخت کے احساس کو، ہمیں اور ہمارے معاشروں کو متاثر کرتا ہے۔ ہمارا حال ہمارے ماضی سے اتنا ہی متعین ہوتا ہے جتنا ہمارا مستقبل ہمارے حال سے متعین ہوتا ہے۔ اور جیسا کہ جارج آرویل نے کہا ہے، 'جو ماضی کو کنٹرول کرتا ہے وہ مستقبل کو کنٹرول کرتا ہے، جو حال کو کنٹرول کرتا ہے، وہ ماضی کو کنٹرول کرتا ہے'۔ 
 
ہیگل اور سانتیانا جیسے فلسفیوں نے تاریخ اور ماضی کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ فلسفہ اور تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ انہوں نے کہا ہے کہ جب بھی ہم ماضی کو بھول جاتے ہیں، ہم ماضی کی غلطیوں کو دہراتے ہیں۔ ہمارے آگے دیکھنے کی بصارت وہی ہے جو ہمارے پیچھے دیکھنے کی بصارت ہے جب ہم ماضی کو بھول جاتے ہیں تو ہم اپنے مستقبل کا تصور نہیں کر پاتے۔ اور جب ہم اپنے مستقبل کا تصور نہیں کر سکتے تو ہم اپنا حال دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں جن کے پاس وژن ہے۔ دوسرے الفاظ میں، اگر آپ کسی شخص کے حال کو ختم یا تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو اس شخص کے مستقبل کے وژن کو تباہ کرنے کی ضرورت ہے۔  یا، آپ کو اسے خواب دیکھنے سے روکنے یا اس کے خواب لوٹنے کی ضرورت ہے۔

اور یہی بات معاشروں اور ثقافتوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔  جن معاشروں نے اپنے مستقبل کے بارے میں تصور کرنا چھوڑ دیا ہے، یا جن ثقافتوں اور تہذیبوں نے خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے، تباہی ان کا مقدر ہے۔ آپ کے ساتھ سب سے بڑی بدقسمتی اور بد بختی یہ ہو سکتی ہے کہ آپ، دیدہ و دانستہ یا نا دانستہ طورپر، دوسروں کو اپنے خواب دیکھنے دیں اوراس سے بھی بدترآپ کے لیے یہ ہے کہ آپ انہیں ان خوابوں کی تعبیر ان کی اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق کرنے دیں۔ 
میرے یہ سب کہنے کی وجہ قارئین کو ایک بہت اہم نکتے کی طرف لانا ہے۔ وہ اہم نکتہ یہ ہے۔۔ 

جس طرح فطری دنیا میں قانون ہے کہ 'کھاؤ ورنہ دوسرے تمہیں کھا جائیں گے'، اسی طرح سماجی دنیا میں قانون ہے، ' اپنے آپ کو خود متعین کرو ورنہ دوسرے آپ کی حد بندی اورترجمانی کریں گے'۔
--------------------------------------------------------------

کہانیاں ہمیں کیا سکھاتی ہیں؟
(جین یولن کی ایک نظم)

اگر تم راکھ کے ڈھیروں پر بیٹھ کر روتے رہو
اس انتظار میں کہ کوئی تمہیں بچا لے
تو گندے ہاتھوں اورتھکی ہوئی خوابیدہ آنکھوں کہ سوا تمہیں کچھ نہیں ملے گا

اگرتم لہلہاتے کھیتوں کے بیچ بے دست و پا کھڑے ہو کر
یہ امید لگائے رکھو کہ کوئی تمھیں کھلائے پلائے
تو تم اپنے فاقے کا بہترین بندوبست کر رہے ہو

اٹھو

اٹھو اوراندھیری رات کی تاریکی میں اپنے تمام خیالی قلعوں کو مسمار کر دو
فجر کی آمد تک، اپنے تمام جعلی معجزوں کو تباہ وبرباد کر دو
اپنے تھکاوٹ سے چور بازؤں سے
اپنے آپ کو اوپر کھینچو
اپنے نیم مردہ جسم کو گھسیٹو
اور آب حیات کے کنوئیں تک رسائی حاصل کر لو

اٹھو

اور انھی شکستہ بازؤں سے زندگی کی لہرکا لمس محسوس کرو
آنسؤں سے سلطنتیں نہیں بنتی
قوموں کی بنیادوں کا گھارا پسینے سے بنایا جاتا ہے
آنسوں اور پسینہ
دونوں ایک جیسے لگتے ہیں
مگران دونوں میں سے صرف ایک پر تمہاری آزادی منحصر ہے
صرف ایک سے تمہاری بقا ممکن ہے

(جین یولن، اردو ترجمہ)
-----------------

مابعد جدیدیت: سچائی (حق) نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہرسچ کا دعویٰ جبری من مانی اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ سوائے اس دعوے کے۔
------------------

 اگرمابعد جدیدیت کے اس غیر انسانی دور میں آپ اپنی انسانیت کو برقراررکھنا چاہتے ہیں تو یقینی بنائیں کہ کچھ بھی نہ بھولیں۔ 
کیونکہ 
ظلم کے خلاف لوگوں کی جدوجہد بھولنے کی بیماری کے خلاف یاداشت کی جدوجہد  ہے۔   (میلان کنڈیرا)
--------------------

مشرق میں (مغربی) جدیدیت: هوشیاررہیں اور ہمیشہ یاد رکھیں کہ جو چیزیں آپ بھول جاتے ہیں، یا آپ کو بھولنا سکھایا جاتا ہے، وہ ہمیشہ ان چیزوں سے زیادہ اہم ہوتی ہیں جو آپ کو یاد ہوتی ہیں، یا یاد رکھنا سکھایا جاتا ہے۔ 
--------------------

سوشل میڈیا: آج کل حریم شاہ کے نئے لباس سے لے کر کوانٹم فزکس تک دنیا اور کائنات کی ہر چیز کے بارے میں ہر کوئی اپنی رائے رکھتا ہے۔ اور اگر آپ ایذا رسانی، دھونس، بدسلوکی، بلیک میلنگ اور یہاں تک کہ تشدد سے بچنا چاہتے ہیں، تو آپ کو ہر ایک کی رائے کو ہمیشہ پسند یا 'لائک' کرنا ہوگا۔ فیس بک، ٹِک ٹاک اور یوٹیوب نے ہر ایک کو پروفیسر، فلسفی، ماہرِ دین، سیاسی تجزیہ کار، مذہبی سکالراور فنکار بنا دیا ہے ہم ایک دلچسپ دور میں رہتے ہیں، جیسا کہ پرانے چینی مفکرین کہتے ہیں۔ جہالت اب علم ہے، جس طرح علم اب جہالت ہے۔ جاہلیت کے اس نئے تاریک دور میں خوش آمدید۔

-------------------------

اس بلاگ کے تمام قارئین کو رمضان مبارک۔


For more, click: Harf e Dervaish#7 Harf e Dervaish#6  Uncle Marx



Wednesday, March 30, 2022

Harf e Dervaish #9 (Urdu)


حرف درویش

کامل خوشی خوشی کی عدم موجودگی ہے۔ (چوانگ زو)
-----------

جدیدیت: عدم میں دم گھٹنے سے مرنے کا ایک طریقہ ۔ (عبدالحکیم مراد)
--------------

ہم ڈاکٹر نہیں ہیں۔ ہم بیماری ہیں. (الیگزینڈر ہرزن)
-----------------------------------------------------------------------------------

میری تحریروں کے ایک دلچسپ، اکثرمہذب وشائستہ لیکن غلط معلومات یا ناقص علم کی وجہ سے، کسی حد تک گمراہ قاری کی طرف سے- یہ وہ محترم ہیں جو اکثرمیرے خیالات اوردلائل پراس انداز میں تنقید کرتے ہیں  ( نیچے) ۔ ان صاحب کے دلائل کو سمجھنا میرے لیے اکثر بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے میں نے پوری کوشش کی ہے کہ ان کی منصفانہ تشریح کروں۔ اگر تشریح میں کوئی غلطی ہو گئی ہو تو میں ان سے معذرت خواہ ہوں۔ اور میں ہمیشہ ان کے لیے دعا گو ہوں۔ (درویش)
-------------

،وہ فرماتے ہیں

آپ ہمیشہ ہم سے کینسرجیسے جدید بیماری سے بچنے اوراس سے نہ مرنے کا کیوں کہتے ہیں؟ ہم بھی کینسراورایڈزجیسی بیماریوں میں مبتلا ہونا چاہتے ہیں۔ ہم بھی کینسر سے مرنا چاہتے ہیں کیونکہ جدید ترین، پہلی دنیا یا زیادہ ترقی یافتہ دنیا کی جدید ترین بیماریوں میں مبتلا ہونا اوران بیماریوں سے مرنا ہمارے لئے انتہائی فخر کی بات ہے۔ ہیضہ ، ملیریا اور پیچش جیسی تیسری دنیا کی کم ترقی یافتہ یا پسماندہ بیماریوں سے مرنا ہمارے لئے انتہائی شرم کی بات ہے۔ ہم بھی مادی طورپرامیراورہماری رائے میں اعلیٰ تہذیب کی جدید ترین بیماریوں سے مرنا چاہتے ہیں۔  جس طرح زندگی ایک شخص کی سماجی حیثیت اورطبقے سے متعلق ہے، اسی طرح موت بھی اس کے طبقے اور سماجی حیثیت سے متعلق ہے۔ یہ ہماری زندگی کا مقصد ہے، ہماری دلی خواہش، ہمارا سب سے پیارا خواب ہے، یعنی امیرانا، شاہانہ اورشانداراسرافی طرز زندگی کی بیماریوں سے مرنا ۔ ہیضے سے مرنا ہماری امیدوں اورخوابوں پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہے- ہمارا خواب کینسراورایڈز میں مبتلا ہونا اورپھران کی وجہ سے شاہانہ انداز میں مرنا ہے کیونکہ یہ سب پہلی دنیا کی خوبصورت بیماریاں ہیں اور امیر اورمہذب لوگوں کی بیماریاں ہیں۔ یہ اعلی جی ڈی پی ممالک کی بیماریاں ہیں۔ اور کون ان بیماریوں سے مرنا چاہتا ہے جو کم جی ڈی پی ممالک کی علامت ہیں؟ کیا تم پاگل ہو؟ لہذا، ہمیشہ جدید ثقافت، جدید طرز زندگی اوران کی خوبصورت بیماریاں جیسے کینسرکے نقصانات کے بارے میں تبلیغ نہ کریں۔ ہم آپ سے بہتر جانتے ہیں۔ ہم اس لئے بہترجانتے ہیں کیونکہ ہم تیسری دنیا کے شہری ہیں اورصرف اورصرف اس تلخ حقیقت کی وجہ سے ہم ان معاملات میں اخلاقی طورپرہمیشہ اعلیٰ اورفکری طور پر ہمیشہ درست ہوتے ہیں۔

تم ایک رجعت پسند لکھاری اورایک سیڈسٹ صوفی ہو (جس کے معنی مجھے نہیں معلوم)- کیونکہ تم ہمیں ترقی یافتہ اورترقی پسند دنیا کی سب سے عظیم ، سب سے زیادہ خوبصورت اور مہذب بیماریوں کی موت سے مرنے سے روکنا چاہتے ہو ۔

----------------------------------------------------------

شور, سکون اور تنہائی


بلیز پاسکل نے ایک بار کہا تھا: 'ہماری ناخوشی اور پریشانی صرف ایک چیز سے پیدا ہوتی ہے، وہ یہ کہ ہم اپنے کمرے میں تنہا آرام سے نہیں بیٹھ سکتے'۔
اس سے پہلے میں نے یہاں اپنی ایک پوسٹ میں پرانے کوئٹہ میں سادگی کے کلچر کی بات کی تھی۔ آج میں پرانے کوئٹہ کی زندگی کے ایک اور پہلو کے بارے میں چند الفاظ کہنا چاہتا ہوں۔  اور وہ شوراورخاموشی یا شوراورسکون کے بارے میں ہے۔ اس لحاظ سے پرانا کوئٹہ آج کے شہر سے بالکل مختلف تھا۔ کوئٹہ ایک پُرسکون پہاڑی شہر ہوا کرتا تھا، جہاں ملک بھرسے لوگ ہرقسم کے شوروغوغا سے بچنےاورآرام کرنے کے لیے آتے تھے۔ یہ پرانے نوآبادیاتی دنوں سے ایک پرسکون پہاڑی اسٹیشن ( ہل سٹیشن) کی شناخت اور شہرت رکھتا تھا۔ انیس سو اکہتر کی جنگ میں شہید ہونے والے میرے چچا کوئٹہ کے بارے میں کہا کرتے تھے کہ کوئٹہ کی راتیں اورکوئٹہ کا پانی دنیا میں کہیں نہیں ملتا۔ 

یہ گرمیوں میں ٹھنڈا اورہمیشہ صاف ستھرا شہر ہوا کرتا تھا۔  لوگوں کے پاس زندگی کی اتنی زیادہ سہولتیں نہیں تھیں جتنی آج کل ہیں، لیکن ان میں اپنائیت کا گہرا احساس، فرض اورذمہ داری کی سمجھ بوجھ یا مختصر یہ کہ ان کے پاس ایک گہرا شہری احساس ہوتا تھا۔ کیونکہ ہرکوئی ہرکسی کو جانتا تھا اس لیے لوگوں میں شرم و حیا کا احساس ہوا کرتا تھا۔ جب چھوٹے شہر بڑھتے ہیں اور بڑے شہر بن جاتے ہیں تو سب اجنبی بن جاتے ہیں۔  بلخصوص جب توسیع افراتفری میں یا بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہو۔ اور ہم جانتے ہیں کہ مکمل اجنبیوں کے درمیان تعلق ایک دوسرے کو جاننے والے لوگوں کے درمیان تعلق جیسا نہیں ہوتا ہے۔  روایتی امریکی کسان اورشاعروینڈیل بیری نے کہا ہے کہ اگر آپ نہیں جانتے کہ آپ کہاں ہیں، تو آپ نہیں جانتے کہ آپ کون ہیں۔ جن لوگوں کی کسی جگہ پر کوئی گہری جڑیں نہیں ہوتی ہیں وہ اس جگہ اور اس کی ثقافت کے بارے میں اس طرح محسوس نہیں کرتے جیسے وہ لوگ جو اس جگہ کی مٹی میں تاریخی اور ثقافتی جڑیں رکھتے ہیں۔  ایک لحاظ سے، آپ اس جگہ سے بالکل مشابہت رکھتے ہیں، درحقیقت، آپ وہی جگہ ہیں، جس طرح وہ جگہ آپ سے ملتی جلتی ہے، اوروہ بالکل وہی ہے جو آپ ہیں۔ مختصراً، یہ ایک بالکل مختلف جگہ ہوا کرتی تھی اور شوراورآلودگی کے اس جہنم سے کوئی مشابہت نہیں رکھتی تھی جو اب یہ شہر بن چکا ہے۔

تنہائی، خاموشی اور سکون ہماری نفسیاتی صحت اور ہماری روحانی نشوونما کے لیے بہت اہم ہیں۔  یہ تمام چیزیں پرانے کوئٹہ کے لوگوں کو دستیاب تھیں۔
اور شاید اسی وجہ سے ان کی قدریں مختلف تھیں اورزندگی، کام، رشتے، محبت اور  یہاں تک کہ موت کے بارے میں بھی ان کا نظریہ بہت مختلف تھا۔

جلال الدین رومی فرماتے ہیں۔


روحانی خوشی صرف تنہائی سے حاصل ہوتی ہے۔ اسی لیے دانا کنویں کی تہہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ کیونکہ کنویں کی گہرائی کا اندھیرا یہاں کے اندھیروں کو شکست دیتا ہے۔ وہ جو دنیا کی چمک دمک کے پیچھے بھاگتا ہے۔  وہ اپنے دل ودماغ اوراپنی روح کو کبھی نہیں بچا سکتا۔  آج کل ہرنیا گیجٹ یا مشین ہمارے لیے مزید آسانیوں اورسہولتوں کا اعلان کرتا ہے، لیکن درحقیقت ان کی اصل فتح ہماری اندرونی اور روحانی زندگی پر ہوتی ہے۔ بے شک، سہولت اور آسانی ہمیشہ مطلوبہ رہتی ہیں لیکن وہ ایک بیمار، غلامانہ انحصار کو بھی جنم دیتے ہیں۔ جب ہم کوشش اور مشکل سے گریز کرتے ہیں، جب ہم اس چیز کو نظرانداز کرتے ہیں جو ہماری طویل اور گہری توجہ کا تقاضا کرتی ہے، تو ہم اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرنے کا موقع بھی کھو دیتے ہیں۔ یہ اجنبی اور مشکل چیزوں کے ساتھ ہماری تکلیف دہ جدوجہد کی وجہ سے ہے کہ ہم اکثر مستند خوشی کا تجربہ کرتے ہیں اور ان کے ذریعے ہم عظمت حاصل  کرتے ہیں۔  یہ "سمارٹ" گیجٹس اور مشینیں، یہ آئی فون، آئی پیڈ، ٹیبلیٹ، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ اب ہر جگہ موجود ہیں: کچن میں، کمرے میں، سونے کے کمرے میں اور ہمارے بستروں میں، بیت الخلا میں، ہماری کاروں میں، ہماری ریل گاڑیوں میں۔ دفاتر اور اسکول، ہمارے دلوں اور دماغوں میں۔  وہ اب ہماری سب سے نجی اوراہم ترین جگہوں پر حکومت کرتے ہیں اوران اہم نجی اوراندرونی کائناتوں کو بے بس غلاموں کی کالونیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔  ایسا لگتا ہے کہ یہ اضطراب پیدا کرنے والی آلودگی، یہ خلفشار کی سازش، اورشوروغل مچانے کے اس جدید منصوبے کا ایک ہی مقصد ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ آلودگی اور سازش ہماری ہر اس چیز سے مسلسل توجہ ہٹانے کی کوشش ہے جوصحت مند اورجامع معاشروں میں ہمیشہ سے ایک معاشرتی اور ثقافتی بھلائی سمجھی جاتی رہی ہیں، یعنی گہری سوچ اور مراقبہ، عبادت یا نماز کی ادائیگی اورخاموشی اور تنہائی میں خود کو جانچنے اورخود پرغورکرنا جیسی چیزیں۔  یہ تیزی سے بڑھتے ہوئے متصرف آلات اوروبائی بیماری کی طرح پھیلنے والی مشینیں اس طرح بنائی اور پروگرام کی جاتی ہیں کہ ان میں سینٹرفیوگل قوتیں اوررجحانات (بعید ازمرکزطاقت یا توانائی) ہوتے ہیں جو ہمیں ہمارے اندرونی نفسیاتی اور روحانی وسائل سے دور باہر کی طرف کھینچتے ہیں اورپھر وہ ہمیں بے معنویّت کی وسیع دنیا میں بکھیر دیتے ہیں۔ یہ مشینیں ہم کیا ہیں، ہم کون ہیں، اوراپنی ممکنہ فطرت کے مطابق ہم کیا اور کون بن سکتے ہیں کے درمیان بدصورت رکاوٹیں یا بندشیں بن گئے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خاموشی، تنہائی اورسکون کو اگر ناممکن نہیں تو بہت مشکل بنا دیتے ہیں۔ قدیم زمانے کے بزرگوں نے یہ حکمت ہمارے لیے چھوڑی ہے: باہر کی آلودگی اورانتشاردراصل ہمارے اندر کی آلودگی اور خلفشار کا عکس ہیں - جیسے اندر، وہی باہر۔ آخر میں میں وہی دہراتا ہوں جو میں نے پہلے کہا تھا۔ آپ اس جگہ سے، جہاں سے آپ کا تعلق ہے، بالکل مشابہت رکھتے ہیں، درحقیقت، آپ وہی جگہ ہی توہیں، جس طرح وہ جگہ آپ سے ملتی جلتی ہے، اوروہ بالکل وہی ہے جو آپ ہیں


الله اعلم‎
---------------------------------------------

پاکستان میں نام نہاد جمہوریت: محافظوں کی حفاظت کون کرے گا؟
یعنی چوکیداروں پر کون نظر رکھے گا؟
------------------------------------------


ہر وقت ان چیزوں کے بارے میں سوچنا جو دوسرے لوگوں کے پاس ہیں اور ہمارے پاس نہیں ہیں ہمارے بہت سے نفسیاتی مسائل کی وجہ ہے۔
-----------------------------------------

ڈیکارٹ: میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں۔
امریکی شہری: میں نہیں سوچتا، اس لیے میں ہوں۔

(کچھ دہائیاں قبل جولیس ایوولا کا مشاہدہ)
------------------------------------------

خدا نے جنگ کا تصور اس لیے بنایا تاکہ امریکی جغرافیہ سیکھیں۔ (مارک ٹوین)
--------------------------------------

For more: Harf e Dervaish #4 Harf e Dervaish #8 Harf e Dervaish#1

And some more here:  Lament for Quetta  Regal Cinema, Qta.

Two Perspectives

Monday, March 28, 2022

Harf e Dervaish #8 (Urdu)

 


حرف درویش


حکمت کی باتیں مومن کی کھوئی ہوئی چیزیں ہیں۔ اسے جہاں کہیں بھی ملے ان پر دعویٰ کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے۔

(حدیث)

میں یقین کرتا ہوں تاکہ میں سمجھ سکوں۔

(سینٹ آگسٹین)

زندگی کا مقصد عظیم سےعظیم تر چیزوں کے مقابلے میں شکست کا مزہ چکھنا ہے۔

(ایرک ماریا رلکے)

---------------------------------------------------------

میرے کوئٹہ وال دوستو(اور اس بلاگ کے دیگر تمام معززقارئین) : کوئٹہ کے اس عاجزلغڑی کو اپنی دوربین اور خوردبین سمجھیں جو آپ کو بہت دوراور بہت چھوٹی چیزوں کو دکھانے کی عاجزانہ کوشش کرتا رہتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں جدیدیت کے غالب شعور، مادیت پسند تہذیب، اورگستاخانہ کلچر نے جان بوجھ کر ہم جیسے لوگوں کے لیے دیکھنا مشکل بنا دیا ہے۔ اس مسلط شدہ ذہنی اوربصری اندھے پن کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں سے کچھ کومیں یہاں بیان کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہاں، یہ سچ ہےکہ میں یہ سب کچھ اپنے مخصوص، غیر روایتی شاید غیرمتوقع اوربعض اوقات خبطی، علمی اور ادبی انداز میں کرتا ہوں جس سے آپ اتفاق یا اختلاف کر سکتے ہیں۔ چاہے آپ متفق ہوں یا نہ ہوں، وہ یقینی طور پر آپ کا اپنا اختیارواستحقاق ہے- اور اب، براہ کرم پڑھیں، سوچیں، لطف اٹھائیں اوران تحریروں کواپنے جیسے اچھے، فکری طور پر بالغ، جمالیاتی طور پرنفیس اورسمجھدار لوگوں کے ساتھ شئیر کریں۔

(درویش)

--------------------------------------------

اپنے دین کو ' جدید سائنسی طور پر یا سائنسی طریقوں سے' سمجھنا سورج کے وجود اور صداقت کی تصدیق کے لیے بالکل نابینا آدمی کی مدد لینے کے مترادف ہے۔

------------------------

پرانے اسپین کے لوگوں نے کہا ہے: وہ چھوٹی چھوٹی محرومیاں اور وہ چھوٹی چھوٹی مہربانیاں جو ان محرومیوں کو دور کرتے ہیں، ہم میں صبر، شکر اور توبہ کے فضائل کو ابھارتی ہیں۔

---------------------------

  بے معنی جدید صارفی طرززندگی اوراس کے ماحولیاتی اور سماجی نقصانات 

ہم ان ہمیشہ پیاسے لوگوں کی طرح ہیں جو اس چشمے کے بارے میں ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچتے جس چشمے سے ہماری پیاس بجھانے والا پانی بہتا ہے۔

ہم ناشکرے، عاقبت نا اندیش اور غافل لوگ ہیں اور ان تمام چیزوں کے ماخذ اور اصل سے ناواقف ہیں جو ہماری زندگی کو برقرار رکھتے ہیں۔

اپنی جہالت پر مبنی تکبر کی وجہ سے ہم درخت کی وہی شاخ کاٹتے ہیں جن پر ہم بیٹھتے ہیں اور جن سے ہم اپنی غذا حاصل کرتے ہیں۔
ہم نے ضروریات کو خواہشات کے ساتھ الجھا دیا ہے۔
ہم نے حقیقی خوشی اور مستقل یا دیرپا باطنی اطمینان کو غیر ذمہ دارانہ مادیت پرستی سے الجھا دیا ہے۔
ہم نے اپنی شناخت کو اپنی ملکیت والی چیزوں کی تعداد یا مقدار کے ساتھ الجھا دیا ہے۔
ہم نے روحانیت کو نفسیات کے ساتھ الجھا دیا ہے، خاص طور پر ہمارے فتوی بازمذہبی رہنماؤں نے ۔
ہم نے یونیورسٹی کی ڈگری کو حقیقی تعلیم اورتربیت سمجھ لیا ہے۔
ہم نے غلطی سے مقدار کو معیار سمجھ لیا ہے۔
ہم نے "میں سمجھتا ہوں" کے ساتھ "مجھے پسند ہے" کو الجھا دیا ہے (سوشل میڈیا کے بے لگام استعمال کی بیماری) ۔ یہ دونوں ہمیشہ ایک جیسی چیزیں نہیں ہوتی ہیں، خاص طور پر اس نئے علمی اور اخلاقی طور پر آلودہ پوسٹ ماڈرن تاریک دور میں۔ اکثر، یہ ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہوتے ہیں۔

اور ہم اس سارے پاگل پنے کو، اس پر تشدد حماقت کو "تہذیب"، "ارتقاء" اور "ترقی" سمجھتے ہیں اورنشے میں دھت بیوقوفوں کی طرح ان کا جشن مناتے ہیں۔

----------------------------------------

جس طرح ایک پودا روشنی کی طرف رخ کرنے میں کوئی غلطی نہیں کرتا، اسی طرح انسان وحی کی پیروی میں اور اس کے نتیجے میں دین کی پیروی میں کوئی غلطی نہیں کرتا۔ (عیسٰی نورالدین)

----------------------------------------

جدیدیت کے شیر کی سواری 

ہم سب جدیدیت کے شیر پر سوار ہیں- اس جدید دنیا میں جو ہر لمحہ اور ہر قیمت پرروایتی اورماقبل جدیدیت یا غیرجدید دنیا (یعنی وہ دنیا جو مقدس علامتوں سے بھری ہوئی تھی ، یا جب لوگ ان تمام علامتوں کو اس طرح سمجھتے تھے جس طرح انہیں سمجھا جانا چاہئے) کی بے حرمتی پر متشدد اصرار کرتی ہے، یہ زندگی کی حقیقت اوراس زندگی کو جینے کی مشکل اور المناک حالت ہے ۔

ہم اس خوفناک اورخونخوار شیر کے ساتھ نہ تو استدلال کر سکتے ہیں، اور نہ ہی ہم اس کی پشت پر سے اپنی مرضی سے اتر سکتے ہیں۔
ہم صرف اور صرف ایک کام کر سکتے ہیں: شیر پرسواری کرتے رہنا  یا اس پرمسلسل سوار رہنا۔
جس کا مطلب ہے کہ اس خوفناک اور پاگل درندے پر سوار رہنے کا طریقہ جاننا ہمارے لیے اشد ضروری ہے۔
ورنہ ہماری سفاکانہ موت ناگزیر ہے۔

اور نہ صرف اس پر ڈٹے رہنا، بلکہ اس سے بھی اہم بات یہ جاننا کہ اسے اپنی مرضی اور خواہش، جو ان اقدار اور عقائد کی عکاسی کرتا ہے جن کا ماخذ ہماری مذہبی فکری اور روحانی روایات ہیں، کے تابع کیسے کیا جائے۔
 درندے کو زیر یا ٹرین کرنے ( تربیت دینے) کا یہ طریقہ گویا اسے دوبارہ اس کی اصل فطرت کی طرف موڑنے جیسا ہوگا۔
صرف ایسا کرنے سے ہی ہم اپنا وقار، اپنی عزت، اپنی اقدار، مختصرا، اپنا مذہب یعنی اپنی انسانیت کو قائم وبرقرار رکھ سکتے ہیں۔

نوٹ: جدیدیت کے شیر پر سوار ہونا اصل میں جولیس ایوولا کا تصور ہے۔ میں نے اپنی سمجھ کے مطابق اس تصور کی تشریح کی ہے۔
----------------------------------------
زندگی

زندگی، بنیادی طور پر ہر جگہ ایک جیسی ہے۔ چاہے وہ طوغی روڈ ہو یا توکیو، پشتون آباد ہو یا پیرس، مری آباد ہو یا میلبورن، نچاری و نوا کلی ہو یا نیو یارک، لوڑی میدان ہو یا لندن۔ آخر میں، یہ وہی پرانا انسانی ڈرامہ ہے جس میں مختلف اداکار اور مناظر، ہدایت کار، ،موسیقاراور پروڈیوسر ہوتے ہیں۔ لیکن پلاٹ وہی رہتا ہے۔ مسائل کی نوعیت بدل جاتی ہے لیکن مسائل کبھی ختم نہیں ہوتے۔

سمندر وہی ہیں، برزخ وہی ہے اور ہم اسی برزخ پر پریشان، الجھن کی حالت میں اور کھوئے ہوئے کھڑے ہیں، سوچتے ہیں کہ کیا فیصلہ کریں یا کون سی منزل کا انتخاب کریں ۔

چیزوں کو دیکھنے کے اس طریقے پریا ان کی حقیقت کی اس وضاحت پر یقین کریں، کیونکہ یہ ایک ایسے شخص کا تجزیہ اور مشورہ  ہے جس نے اس دنیا کے تمام براعظموں میں زندگی گزارنے کا تجربہ حاصل کیا ہے۔

-------------------------------------------

مرتد یا سابق مومن سے: تم اس بدقسمت اورنابینا فقیر کی طرح ہو جواپنا قیمتی وقت اوراپنی عمراپنے دل کی گہرائیوں میں دفن پاک اور مقدس نامیاتی
سونے کی تلاش میں دوردرازملکوں کے ریگستانوں کی آلودہ اورغیرنامیاتی خاک چاننے میں گزاررہا ہے
--------------------

اے  سرگرداں ذرے، اپنے مرکزکی طرف لوٹ آؤ 
اور وہ ابدی آئینہ بن جاؤ جسے تم نے دیکھا ہے
تم وہ کرنیں ہوجو دوردورتک تاریکیوں میں بھٹک گئی ہیں
لوٹ آؤ، اور ایک بار پھر اپنے وجود کے سورج میں ڈوب جاؤ، فنا ہو جاؤ۔

(فرید الدین عطار، میرا ترجمہ)


For more: Harf e Dervaish #6 Harf e Dervaish #7 Harf e Dervaish #1

And on Ramzan and fasting:    On Fasting

Sunday, March 27, 2022

Harf e Dervaish #7 (Urdu)

حرف درویش


ایک پرانی غالباً افریقی کہاوت ہے : شیطان ہمیشہ آپ کے کانوں میں یہ سرگوشی کرتا ہے:"تم اپنے تمام بہن بھائیوں، دوستوں، پڑوسیوں اور ساتھی "کارکنوں میں بدترین حالت میں ہو اور باقی سب تم سے بہتر (دنیاوی) حالت میں ہیں- 

جدید دنیا میں جہاں حقیقت صرف مادے کی ہے وہیں شیطان کا یہ وسوسہ بہت سے لوگوں میں بہت سی نفسیاتی اور روحانی بیماریوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جدیدیت کا آغاز اس اعلان سے ہوا: کائنات میں کوئی بھی مقدس چیز نہیں ہے۔ سب کچھ مادی ہے، صرف خالص مادہ۔  اور یہ کہ انسان کو اپنے وجود کے لیے صرف مادے کی ضرورت ہے- شعور بذات خود مالیکیولز اور ایٹموں کی ایک مخصوص ترتیب کے سوا کچھ نہیں ہے۔ روسی مصنف دوستوفسکی نے بھی جدیدیت کے اس اعلان کی صحیح نشاندہی کی تھی ۔ اور اس پر کڑی تنقید بھی کی تھی ۔  وہ یعنی دوستوفسکی جدیدیت کا یہ اعلان اپنےایک ناول میں ایک کردار کے ذریعے کرتا ہے جو کہتا ہے: "کوئی خدا نہیں ہے۔ اور جب کوئی خدا نہیں ہے تو میں خدا ہوں۔ جب کوئی خدا نہیں ہے تو ہر چیز کی اجازت ہے"۔ غالباً اس بد بخت اور پاگل جینئس نطشے نے بھی اپنی کتابوں میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا -  لیکن وہ اور دوستوفسکی ایک جیسے خیالات نہیں رکھتے تھے۔ شیطان کے اس وسوسہ کے خلاف اسلام یہ مذہبی، علمی اور روحانی تصورات اور فضائل پیش کرتا ہے: توکل، صبر، شکر، قناعت اور توبہ۔ یا دوسرے لفظوں میں تقویٰ۔ 
---------------------------------

کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ملک کے سفاک ترین آمروں اور ظالموں کو کرکٹ اس قدر کیوں پسند ہے؟
----------------------------------

جب تک پاکستان میں کرکٹ ہے باقی تمام کھیلوں کا مستقبل تاریک ہے- اگر پاکستان اولمپک گیمز میں میڈل جیتنا چاہتا ہے تو ملک کے تمام بڑے مفتیان کرام کو فتویٰ دے کر کرکٹ کے کھیل کو حرام قرار دینا ہو گا۔ 
-----------------------------------------

پاکستانی سیاست: پاکستانی عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جس طرح فلم میں ہیرو، ہیروئن اور ولن کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ہے، اسی طرح سیاست میں بھی سیاستدانوں کے علاوہ بہت کچھ ہوتا ہے۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر وہ واقعی ایک بہتر اور مختلف سیاسی فلم دیکھنا چاہتے ہیں، یا واقعی سچی اور معیاری پرفارمنس چاہتے ہیں، تو انہیں اپنی ہپناٹائزشدہ آنکھوں اور سوئے ہوئے دماغ کو بدلتے ہیرو، ہیروئن اور ولن سے ہٹا کر حقیقی لوگوں کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جوسیاسی فلموں کو ممکن بناتے ہیں۔ یعنی ہدایت کار، پروڈیوسر، اسکرپٹ رائٹر، کیمرہ مین اور اسٹیج/سیٹ ڈیزائنرز وغیرہ۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا ہونے والا نہیں ہے کیونکہ آج کل زیادہ تر لوگ پروگرامڈ شدہ روبوٹس کی طرح ہیں جن کی زندگی کا واحد مقصد ٹک ٹاک پر اپنی ویڈیوز اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ کرنا، یوٹیوب پر کھانا پکانے کے چینلز چلانا، یا اپنے ٹی وی کے سامنے نیم بیحوشی کی حالت میں بیٹھ کر کوک اسٹوڈیواور پی ایس ایل دیکھتے رہنا ہے۔ ایک بات جو دلچسپ اورقابل غور ہے وہ یہ ہے کہ ان سیاسی فلموں کی کیٹیگری یا انواع بدل گئے ہیں، حالانکہ ان تمام فلموں کے پلاٹ وہی ہیں اوراسکرپٹ رائٹر، ڈائریکٹراور پروڈیوسر ان تمام سالوں میں وہی ہیں یا پھراسی  ہی ایک گروہ سے ہیں۔ ساٹھ سال پہلے کی (سیاسی) فلمیں ہلکے پھلکے ڈرامے ہوتے تھے جن میں حسب معمول ناچ اور گانا اوراداس مناظر ہوتے تھے۔ مرکزی فلم سنسر بورڈ کی طرف سے فلموں کو خاندان کے افراد کے ساتھ دیکھنے کے لیے بے ضرر اورٹھیک قرار دے کر پاس کیا جاتا تھا۔

پھر کامیڈی فلموں کا دور آیا۔ 
جس کے بعد بلیک کامیڈی کا دور آیا جس کے دوران ملک کے مشرقی حصے کو مغربی نصف کے کچھ انتہائی گھٹیا مسخروں اورمزاح نگاروں اور بے شرم و بے ضمیرڈائریکٹروں اور پروڈیوسروں نے بے دردی سے کاٹ کر الگ کر دیا۔  استعماری خیالات سے بھرے ذہنوں کے ساتھ اورنسلی تعصب کا شکار(وہ سب کچھ جو انہوں نے اپنے سفید فام آقاؤں اورسابقه حکمرانوں سے سیکھا تھا)، ان ظالم ہدایت کاروں اور پروڈیوسروں نے ملک کے مشرقی حصے کے سیاسی اور غیرسیاسی اداکاروں اور فنکاروں کو یہ کہہ کریکسرمسترد کر دیا کہ وہ ایکشن اور ایڈونچر فلموں کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ انیس سو اکہتر کی بلاک بسٹر بلیک کامیڈی فلم (جو بالآخر ایک خوفناک ہارر مووی میں بدل گئی) کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ یہ جنسی تشدد، (اجتماعی اور انفرادی) عصمت دری کے مناظر اور خونریزی سے بھرپور تھی۔

یہ ایک المناک وقت میں ایک دل کو چھو لینے والی ، دل کو توڑ دینے والی اور دل دہلا دینے والی بیک وقت سیاسی اور غیر سیاسی فلم تھی۔ اس دور کے بعد ڈراؤنی فلموں کا دورباقائدگی سے شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے اور جس کے بنیادی اندازاورپلاٹ میں روایت کے مطابق بہت زیادہ تبدیلی نہیں آئی  ہے لیکن تشدد، خونریزی, قتل وغارت اورواضح اوربل واستہ جنسی مواد کے حوالے سے بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے۔

ایک اہم اوربڑی تبدیلی ان لوگوں میں آئی ہے جو عموماً پردے کے پیچھے ہوتے ہیں، یعنی ہدایت کار، سیٹ ڈیزائنر، پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر وغیرہ۔ ان میں سب سے بڑی تبدیلی ان کی انسانیت میں واضح انحطاط اور قومی، ثقافتی اور مذہبی وقار کے مکمل طور پر ختم ہو جانا ہے۔ یہ ساری پستی اور تنزلی ان کی نئی انتہائی پرتشدد، بے ہودہ اور فحش ہارر(ڈراونی) فلموں میں آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ اس جیسی پرتشدد اور فحش فلم ان دنوں اسلام آباد کے تمام اہم سیاسی اور غیر سیاسی، یعنی نیوٹرل، سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جا رہی ہے۔ 
-------------------------------------------------

آج کل کے فیشن ایبل اور مصنوعی طور پر مقبول ملحد سے : "وہ نہیں جو تم ظاہر کرتے ہو، لیکن حقیقت میں تم فکری طور پر اتنے سطحی اور علمی اعتبار سے اتنے کھوکھلے اور بے ہودہ کیوں ہو"؟ گویا انسان کا سارا شعورو وجود، اس کا ماضی، حال اور مستقبل مادیت پر مبنی ہے یا صرف مادے پر منحصر ہے۔  نادان آدمی، کیا خالصتا حیاتیاتی سطح پر شہد کی مکھی اپنے چھتے سے پہلے موجود ہو سکتی ہے؟ ہم انسان اپنی سب سے ابتدائی کہانیوں یا داستانوں سے پہلے موجود نہیں ہو سکتے۔ یہ وہ الہامی، دیوتائی قصے یا مقدس اور کثیرالجہتی کہانیاں ہیں جو ہمیں کائنات کی تکوین اورجوہمیں ہماری اصلیت بتاتی ہیں۔ 
(سلویا ونٹرس نے مارکسزم چھوڑتے ہوئے کچھ ایسے ہی الفاظ کہے)
--------------------------------------------
 

For more: Harf e Dervaish #4 Harf e Dervaish #3 Harf e Dervaish #6

And, some more: A Lament for Quetta  Hussainabad


Friday, March 25, 2022

Harf e Dervaish #6 (Urdu)

 


حرف درویش


ماضی کی روش پر قائم رہنے سے، آپ حال کے وجود کے بارے میں مہارت حاصل کر لیں گے۔

 (تاؤ ٹی چنگ)


میں تخلیق نہیں کرتا۔ میں صرف ماضی کے بارے میں بتاتا ہوں۔ (کنفیوشس)


آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ فلسفی جن کی حکمت کی آپ اس قدر تعریف کرتے ہیں، جہاں یہ سر رکھتے ہیں، ہم وہاں اپنے پاؤں رکھتے ہیں۔ (اسحاق آف اکا)۔
---------------------------------------------------------------------

پیش رفت؟ ترقی؟ کیا ترقی ، کیا سرفرازی اورکونسا  تہذیب و تمدن؟ جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا ہے یہ سب محض 'جدید ترین طریقوں سے قدیم ترین گناہوں کا ارتکاب' ہے۔

-------------------------------

یہ مختصر مضمون میں نے بلخصوص  اپنے والد محترم اور ان کے تمام بہترین دوستوں کے لیے لکھا ہے، وہ جینوین یا کھرے اور دلچسپ کویٹہ وال دوست جن میں سے کچھ اب ہمارے درمیان نہیں رہیں-  اللہ ان سب کو خوش رکھے اور جو اب ہمارے درمیان نہیں رہے، اللہ ان کوجنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔
(درویش)

------

 پرانی سادگی اورآج کا ماحولیاتی طور پر تباہ کن اور سماجی طور پرغیر ذمہ دارانہ یعنی مجرمانہ جدید صارفی طرز زندگی۔


پرانے کوئٹہ میں، میرا مطلب ہے ہمارے والدین اوران کے والدین کے کوئٹہ میں، اگر کوئی خوبی ،قدر یا فضیلت سب سے زیادہ نظر آتی تھی تو وہ سادگی تھی۔

میں قارئین کو فوری طور پر متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ برائے مہربانی سادگی کو حماقت اور جہالت سے نہ الجھائیں۔  ہم میں سے بہت سے نادان و ناسمجھ لوگ بغیر سوچے سمجھے اوراکثر کسی رد عمل میں، اور بعض اوقات جان بوجھ کر بھی، سادگی کو حماقت اور جہالت کے ساتھ الجھاتے ہیں۔  ہمیں ہمارے ناقص اور غلامانہ نظام تعلیم نے سکھایا ہے کہ ہر وہ چیز جو ہمارے اپنے بظاہر بہترین اور سب سے خوبصورت دور کی نہیں ہے اور خاص طور پر اگر اس کا تعلق ماضی سے ہے تواسے حماقت، جہالت اور حتیٰ کہ برائی کے سوا کچھ نہیں سمجھنا چاہئے۔  اور پھر ہمیں اپنے اس نام نہاد بہترین اور خوبصورت و اعلی لیکن یکساں طور پر عارضی اور گزرنے واںے دور کے لیے خود کو مبارکباد دینا سکھایا جاتا ہے کیونکہ اس دور کے رہنماؤں، بنانے والوں, دیکھ بھال اوراس کیلیے جواز فراہم کرنے اوروضاحت کرنے والوں کے مطابق یہ ایک ایسا دور ہے جو ماضی کے مقابلے میں اتنی ہی یقینی طور پر بہتر ہے جتنا کہ ایک روشن دھوپ والا دن ایک تاریک اور ڈراونے رات پر ہوتا ہے۔  ہمارے دل و دماغ میں یہ بھی ٹھونس دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ بے مثال ترقی اوربہتر  تہذیب ہے۔  ارتقائی ترقی کا یہ ڈارون کا جھوٹا فرقہ اور اس کے جھوٹے نبی ہمیں ماضی کو حماقت، پسماندگی اور یہاں تک کہ برائی کے ذخیرے کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں دیکھنا سکھا تے ہیں۔  قاری ہوشیار- یہ بلاگ سائٹ ایسے جامع جہالت کے شکار یا ذہنی طور پرغلام لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ اگر آپ ان بد بختوں میں سے  ایک ہیں، اور اگر آپ غلطی سے یہاں آ گئے ہیں تو میری آپ سے گزارش ہے  کہ مہربانی کرکے خاموشی سے چلے جائیں۔ آپ اپنی ذہنی پرورش حاصل کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر کہیں اورتشریف لے جائیں ۔ اور ان سائٹس پر اپنے ارتقائی خیالات  سے لدے ہوئے شعور کو اپ لوڈ اور ڈاؤن لوڈ کریں اور اپنے بچے کچے ترقی پسند  اور ترقی یافتہ وجود کو شیئر اورفاروڈ کریں۔  انٹرنیٹ ایسی سائٹس سے بھرا پڑا ہے  جو ایسے لوگوں کو ذہنی غذا فراہم کرتی ہیں۔ یہ بلاگ سائٹ ان میں سے ایک نہیں  ہے یعنی یہ آپ کے لیے نہیں ہے۔  اس دکان پر ذہن کیلیے علمی اور فکری چاول چولے اور بلبلی، روح کے لیے خالص روحانی اور ماورائیی یا ماورائ  نما  اجزا  سے تیار شدہ سجی اور بریانی، اور تسکین ذوق یا جمالیاتی اطمینان کے لیے کوئٹہ  کے ثقافتی ذائقے اورمقامی رنگ و خوشبو والی کڑاک اور مزیدار چائے فروخت کی  جاتی ہے ۔  میں میکڈونلڈ برگر یا کے ایف سی چکن کی طرز کا دماغی خوراک نہیں  بیچتا، وہ کھانے جو مردہ گوشت سے بنتے ہیں اور جو جسم سے زیادہ دل و دماغ کو  زخمی کرتے ہیں یا نقصان پہنچاتے ہیں۔  اس بلاگ سائٹ کے اغراض و مقاصد کو قارئین پر واضح کرنے کے بعد، اب ہم موضوع کی طرف واپس آتے ہیں۔  سب سے پہلے تو میں ماضی قریب کے ان سادہ یا سادہ لوح لوگوں کو فلسفی یا حکیم  کا خطاب  دینا چاہتا ہوں۔  میں فلسفہ کے اس لفظ کو اس کی جدید شکل میں استعمال نہیں کر رہا ہوں جو دراصل اس کے قدیم، کلاسیکی معنی کے بالکل برعکس ہے۔  اس کے بجائے، میں اسے طرز زندگی کے معنی میں استعمال کر رہا ہوں۔ اس سے میرا  مطلب صرف کسی قسم کی ذہنی جمناسٹکس ,ذہنی سمرسالٹ یا قلا بازیا ں مارنا  نہیں ہے بلکہ زندگی گزارنے کا ایک ایسا جامع طریقہ ہے جو شعور اور وجود دونوں کی مکمل ہم آہنگی پر مشتمل ہے۔

دوسرے لفظوں میں یہ لوگ نہ صرف ایک خاص قسم کے علم کے مالک تھے بلکہ انہوں نے اس علم کو اپنے وجود میں، اپنے کہنے اور کرنے میں بھی عملی جامہ پہنایا ہوا تھا۔  جس کا مطلب ہے، علم اور تربیت۔ ہمارے برعکس، ان کے لیے دونوں  لازم و ملزوم تھے۔  مختصر یہ کہ ان کا فلسفہ ان کی سادگی میں سب سے زیادہ نمایا تھا۔  وہ سیدھی بات کرنے والے اور سمجھدار لوگ تھے- ان کی سادگی اس حقیقت کی عکاس تھی کہ انہوں نے زندگی میں ضروری چند چیزوں کو بہت سی غیر ضروری  یعنی فضول اور معمولی چیزوں کے ساتھ کبھی نہیں الجھایا۔  آج کل، لوگ اس اہم امتیاز کو کرنے کی صلاحیت کھو چکے ہیں جس کی وجہ سے اب وہ اس سارے  کچرے میں ڈوب رہے ہیں جسے وہ بغیر سوچے سمجھے خریدتے، جمع کرتے یا ذخیرہ کرتے ہیں۔  ماضی کے ان لوگوں کے لیے وہ چیزیں جو زندگی کو برقرار  رکھنے کے لیے قطعاً ضروری نہیں تھیں، وہ صرف غیر ضروری بوجھ تھیں۔  ایک ایسا بوجھ جو آخر کار آدمی کو اخلاقی طور پر زوال پذیر بناتا ہے، اس کے تخیل کو  کند اور اس کی قوت ارادی کو کمزور بنا دیتا ہے۔  وہ ایسے لوگ تھے جو مقدار کو ترسنے کے بجائے کوالٹی یا معیار سے پوری طرح ہم آہنگ تھے۔  وہ جانتے تھے کہ واقعی امیر اور مطمئن ہونے کے لیے کسی شخص کو بہت کچھ خریدنے، جمع کرنے اور رکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔  وہ اس زمانے کے لوگ تھے جب لوگ زیادہ سنتے تھے اور کم کہتے تھے لیکن جو کچھ بھی کہتے تھے اس میں ہمیشہ بہت زیادہ  معنی اور وزن ہوتا تھا۔  آج کل، مرد اورخواتین بہت کچھ کہتے ہیں، وہ آن لائن اور آف لائن دونوں طرح سے نان اسٹاپ بولتے رہتے ہیں، اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اس  کا مطلب بہت کم ہوتا ہے، اور اکثر اس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے۔  یہ وہ زمانہ تھا جب چیزوں کے مناسب نام بھی نہیں تھے، پھر بھی وہ مقصد سے مالا مال اور معنی  سے بھری ہوتھی تھیں۔  اب چیزوں کے واضح نام، وسیع تعریفیں، رنگین لیبل اور تفصیلی وضاحتیں ہیں، لیکن معنی اور مقصد کی کمی ہے۔  لوگ اپنے نیک کاموں کی تشہیر کیے بغیر اچھے کام کرتے تھے۔ وہ خود کو فروغ دینے اور اپنی دوکاندارانہ  مارکیٹنگ میں ملوث ہوئے بغیر نیک کام انجام دیتے تھے۔  تب لوگ بے شرمی سے صدقہ دینے جیسی نیکیاں دکھانے کے بجائے چھپ چھپ کر ان پر عمل کرتے تھے۔  ایک نیک عمل ہمیشہ اللہ کی رضا کے لیے کیا جاتا تھا اور پھر وہ نیکی احسان کرنے والا بالکل بھول جاتا تھا۔  ان میں سے بہت سے لوگ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن ان کے پاس حکمت تھی- ان کی آنکھیں ایسی تھیں جو ان تصویروں کو دیکھ  سکتی تھیں جو رنگوں میں نہیں ہوتی تھیں۔  وہ بہت سی طویل رزمیہ نظمیں یا مہاکاوی نظمیں یاد کر سکتے تھے اور بلخصوص سنا بھی سکتے تھے۔ اوروہ  حافظے سے ایسی کہانیاں سنا تے تھے جو مہینوں تک ختم نہیں ہوتی تھیں۔
ایک عجیب قسم کی عاجزی ، انکساریت اور خود انکاریت تھی ان لوگوں میں۔  وہ یہ  سب کچھ کر سکتے تھے کیونکہ زندگی کے بارے میں ان کا ایک خاص نظریہ تھا۔ وہ  زندگی کے بارے میں ایک سادہ لیکن گہری حکمت رکھتے تھے. اسے سادگی کہتے تھے۔ 

بس ایک ہی راستہ ہے دنیا کو زیر کرنے کا، جیتنے کا
یہ جتنی پرپیچ ہوتی جائے، اسی قدر سہل وسادہ ہو جا
(افتخار عارف)
----------------------------------------------------------


آپ کے بہن بھائی اور آپ کے پرانے دوست نہ صرف آپ کے بچپن کی یادوں کا  بھرپور ذخیرہ اور خزانہ ہیں بلکہ وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں۔  وہ ان تصویری البموں کی طرح ہیں جن کا ہر صفحہ اکثر خوشی اور کبھی کبھار غم سے بھرا ہوتا ہے لیکن وہ غم بھی ایسے ہوتے ہیں جو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہیں۔  اپنے بہن بھائیوں اوربلخصوص اپنے پرانے دوستوں کی قدروعزت کریں۔
----------------------------

جدید مغرب کی پیداوار، اسلامو فوبیا کی عجیب استخراجی استدلال یا غیر معقول,  متعصب و منحرف منطق: تمام لوگ برائی کرتے ہیں. کچھ لوگ مسلمان ہیں۔  (لہذا،) مسلمان برے ہیں۔ 
------------------------------


پوسٹ ڈیکارٹ (ڈیکارٹ کے بعد) : (کوگیٹو ایرگو سم) میں سوچ سکتا ہوں، اس لیے میں ہوں۔  پری ڈیکارٹ (ڈیکارٹ سے پہلے) : (کوگیٹو ایرگو ایسٹ)۔ میں سوچ سکتا  ہوں، اس لیے وہ (خدا) ہے- یا 'کیونکہ میں سوچ سکتا ہوں، وہ (خدا) ہے'۔
-------------------------------


فرض کریں کہ آپ ایک بے غیرت، بے ضمیر اور بے شرم انسان ہیں۔ اور فرض کریں کہ آپ کا تعلق پاکستانی حکمران طبقے سے ہے۔ معاف کیجئے گا، لیکن میں اپنے آپ کو دہرا رہا ہوں۔
(عظیم مارک ٹوین سے مستعار)
-------------------------------


پاکستان (1970 کی دہائی): دو مشہور اور مقبول ترین شخصیات افتخار عارف اور عبید اللہ بیگ تھیں۔  
آج کا پاکستان (2022): اب مشہور اور مقبول ترین شخصیات میں حریم شاہ اور علی گل پیر جیسے نام ہیں۔
--------------------------------

(فیس بک، ٹویٹر، یو ٹیوب کے غنڈے ٹرول)

سماجی انصاف یا ہر گزرتے ہوئے فیشن ایبل سماجی مسئلے کے حل کا مطالبہ کرنے والے سوشل میڈیا کے جنگجو دانشور

لائٹس جل رہی ہیں، لیکن گھر میں کوئی نہیں ہے"۔"

-------------------------
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) : ایسے لوگوں کی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کریں جو ایماندار ہوں اور جن کے دلوں میں خوف خدا ہو اور اصل میں کیا  ہوگا کہ سارے چور اور گناہ گار اس میں شامل ہو جائیں گے۔ 
-------------------------

For more: Harfe Dervaish #1 Harf e Dervaish #5 Harf e Dervaish #4

And:         A Lament for Quetta , Hussainabad, Quetta


On Happiness

  On Happiness: some random thoughts "Perfect happiness is the absence of happiness."       Chuang Tzu "Destroy a man's i...